کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 258
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا،یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیال کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے پاس گئے ہیں،حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس نہ گئے ہوتے۔سفیان رحمہ اللہ نے کہا کہ ایسا جادو بہت سخت ہوتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ رضی اللہ عنہا! کیا تمھیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے استفسار کا کیا جواب دیا؟ میرے پاس دو مرد آئے،ایک میرے سر کے پاس بیٹھا اور دوسرا پاؤں کے پاس۔جو سر کے پاس تھا،اس نے کہا: اس شخص کا کیا حال ہے؟ دوسرے نے کہا کہ یہ مطبوب یعنی مسحور ہیں۔اس نے پوچھا کہ اس پر کس نے جادو کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ لبید بن عاصم نے،جو بنو زریق کا ایک فرد،یہود کا حلیف اور منافق تھا۔پوچھا کہ اس نے یہ جادو کس چیز میں کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ سر کے بال اور کنگھی میں،پوچھا کہ وہ کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ چاہِ ذروان میں گابھے کے چھلکے میں پتھر کے نیچے وہ دفن ہے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کنویں پر گئے،اس جادو کو نکالا اور فرمایا کہ یہ وہی کنواں ہے جو مجھے دکھایا گیا تھا۔اس کنویں کا پانی ایسا تھا جیسے منہدی کا نچوڑ ہوتا ہے۔وہاں کی کھجوریں ایسی تھیں جیسے شیاطین کے سر ہوتے ہیں۔جب وہ جادو نکالا گیا تو میں (عائشہ رضی اللہ عنہا) نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ظاہر نہیں فرماتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: سن! اللہ نے مجھے شفا بخشی اور میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کسی پر شرانگیزی کروں۔[1] (رواہ البخاري) دوسری روایت میں یوں ذکر ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خیال گزرتا کہ میں نے فلاں کام کیا ہے،حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کام نہ کیا ہوتا،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کنویں کو پُر کروا دیا۔[2] ابن عباس اور عائشہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں : ’’ایک یہودی لڑکا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا۔یہود نے اسے اپنے ساتھ ملا کر اس کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کی کنگھی اور شانے کے کچھ بال لے کر ان پر جادو کیا۔جادو کرنے والا لبید بن اعصم تھا۔علی،عمار بن یاسر اور زبیر رضی اللہ عنہم گئے اور اس کنویں کا پانی نکالا،اس کا پانی منہدی رنگ کا تھا۔پھر انھوں نے پتھر اٹھا کر نیچے سے گابھا نکالا،
[1] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۵۷۶۵) [2] صحیح البخاري،رقم الحدیث(۵۸۶۳،۶۳۹۱،۵۷۶۶)