کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 256
فرمانِ باری تعالیٰ: ﴿مِنْ شَرِّ مَا خَلَق﴾ سے مراد تمام مخلوقات کا شر ہے۔ثابت بنانی اور حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس سے مراد جہنم،ابلیس اور اس کی ذریت ہے جو اللہ کی مخلوقات میں شامل ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ فرمانِ الہٰی ﴿وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِِذَا وَقَبَ﴾ میں ﴿وَقَبَ﴾ سے مراد غروب آفتاب ہے،اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے حکایت کیا ہے۔[1] مجاہد،ابن عباس رضی اللہ عنہما،قرظی،ضحاک،خصیف،حسن اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم کا یہی قول ہے۔عطیہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس سے مراد رات کا جانا ہے۔بعض نے کہا ہے کہ اس سے رات کے اندھیرے کا آنا مراد ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہے کہ اس سے مراد ستارہ ہے۔ابن زید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عرب لوگ سقوطِ ثریا کو غاسق کہتے تھے اور اس سقوط کے واقع ہونے کے وقت اَسقام و طواحین [بیماریوں اور حوادثات] کا کثرت سے ہونا بتاتے تھے اور طلوعِ ثریا کے وقت ان آفات کا رفع دفع ہو جانا یقین کرتے تھے۔بعض نے کہا ہے کہ ﴿غَاسِقٍ﴾ سے مراد چاند ہے۔[2] عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعًا مروی حدیث میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: ((تَعَوَّذِيْ مِنْ شَرِّ ھٰذَا الْغَاسِقِ))[اس غاسق کے شر سے پناہ پکڑ] اوریہ کہتے ہوئے مجھے چاند کا طلوع ہونا دکھایا۔‘‘[3] (رواہ أحمد والنسائي،قال الترمذي: حدیث حسن صحیح) جامع ترمذی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ پناہ مانگ اللہ کی اس کے شر سے کہ یہ غاسق ہے جب سمٹ آئے۔نسائی کے الفاظ یہ ہیں کہ پناہ مانگ اللہ کی اس غاسق سے جبکہ یہ سمٹے۔ پہلے قول والوں نے کہا ہے کہ یہ رات کی نشانی ہے۔یہ قول ہمارے خلاف نہیں ہے،کیونکہ قمر ونجوم کی سلطنت رات ہی کو ہوتی ہے۔ مجاہد،عکرمہ،حسن،قتادہ اور ضحاک رحمہ اللہ علیہم نے کہا ہے کہ فرمانِ باری تعالیٰ ﴿وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ﴾ میں ﴿اَلنَّفّٰثٰتِ﴾ سے مراد جادو گرنیاں ہیں۔مجاہد رحمہ اللہ نے کہا کہ وہ جادو گرنیاں جب منتر کریں اور گرہوں پر پھونکیں۔طاؤس رحمہ اللہ نے کہا کہ کوئی شے سانپ اور مجانین کے دم سے زیادہ
[1] مصدر سابق [2] تفسیر ابن کثیر (۴/۷۴۷) [3] مسند أحمد (۶/۶۱) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۳۳۶۶) سنن النسائيالکبریٰ،رقم الحدیث (۱۰۱۳۸)