کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 255
کی برائی سے جب وہ سمٹ آئے اور عورتوں کی بدی سے جو گرہوں میں پھونکیں اور برا چاہنے والے کی برائی سے جب وہ حسد کرنے لگے] ﴿غَاسِقٍ﴾ سے مراد رات کا اندھیرا یا چاند کا گہن ہے،اس میں ظاہر و باطن کی سب تاریکیاں،تنگ دستی،پریشانی اورگمراہی شامل ہے۔﴿اَلنَّفّٰثٰت﴾ سے مراد جادو گر ہیں۔حاسد کی ٹوک لگ جاتی ہے۔ جابر نے کہا ہے کہ ﴿اَلْفَلَقِ﴾ سے مراد صبح ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بھی یہی قول ہے۔مجاہد،سعید بن جبیر،عبداللہ بن محمد بن عقیل،حسن،قتادہ،قرظی،ابن زید اور زید بن اسلم رحمہ اللہ علیہم اسی کے قائل ہیں۔[1] قرظی،ابن زید اور ابن جریر رحمہ اللہ علیہم نے کہا ہے[2] کہ یہ اس آیت کے مثل ہے: ﴿فَالِقُ الْاِصْبِاحِ﴾ [الأنعام: ۹۶] ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ہے کہ’’فَلَقِ‘‘ سے مراد خلق ہے۔ضحاک رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ ساری خلق سے پناہ مانگیں۔کعب الاحبار رضی اللہ عنہ نے کہا ہے کہ ﴿اَلْفَلَقِ﴾ جہنم میں ایک جنگل (گھر) ہے،جب وہ کھولا جاتا ہے تو سارے جہنمی اس کی شدتِ گرمی سے چیختے ہیں۔ زید بن علی رحمہ اللہ اپنے آبا سے بیان کرتے ہیں،انھوں نے کہا کہ ﴿اَلْفَلَقِ﴾ جہنم کی تہ میں ایک کنواں ہے،اس پر ایک پردہ پڑا ہوا ہے،جب وہ پردہ اٹھایا جاتا ہے تو اس سے ایک ایسی آگ نکلتی ہے جس سے خود جہنم اس کی شدتِ گرمی کے سبب چیخنے لگتی ہے۔عمرو بن عنبسہ،ابن عباس رضی اللہ عنہم اور سدی رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے۔اس بارے ایک مرفوع حدیث بھی آئی ہے،لیکن وہ منکر ہے۔[3] ابو عبدالرحمن جیلی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ’’فَلَق‘‘ جہنم کا نام ہے،لیکن ابن جریر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ پہلا قول درست ہے کہ’’فَلَقِ‘‘ سے مراد صبح ہے۔[4] یہی بات صحیح ہے اور اسی کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں اختیار کیا ہے۔[5]
[1] تفسیر ابن کثیر ۴/۷۴۶) [2] تفسیر ابن جریر (۳۰/۳۵۰) [3] تفسیرالطبري (۳۰/۲۲۵) [4] دیکھیں : تفسیر ابن جریر (۳۰/۲۲۵) تفسیر ابن کثیر (۴/۷۴۶) [5] صحیح البخاري مع الفتح (۸/۷۴۱)