کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 249
نے اولاد اختیار کی ہے،حالانکہ میں احد و صمد ہوں،میں نے اولاد جنی اور نہ میں خود جنا گیا اور نہ کوئی میرے جوڑ کا ہے۔‘‘[1] (رواہ البخاري) ’’فتح البیان‘‘ میں ہے کہ لفظ مبارک’’اللہ‘‘ تمام صفاتِ کمال جو صفاتِ ثبوتیہ ہیں،ان پر دلیل ہے،جیسے علم،قدرت اور ارادہ۔’’احد‘‘ تمام صفاتِ جلال پر دلیل ہے۔یہ صفاتِ ثبوتیہ ہیں،جیسے قِدم و بقا۔صمد وہ ہے جس کا حاجات میں قصد کریں،کیونکہ وہ قضاے حاجت پر قدرت رکھتا ہے۔ زجاج رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ صمد وہ سید ہے جس کے اوپر کوئی سید نہ ہو۔یا صمد کے معنی ہیں ازل سے ابد تک دائم اور باقی۔یا وہ جو کسی کا محتاج نہ ہو۔یا جو رغبتوں میں مقصود اور مصیبتوں میں مستعان بہ ہو۔یا وہ ذات کہ جو چاہے سو کرے اور اپنے ارادے کے موافق حکم دے،یا کامل بے عیب۔ اس سورت کے آغاز میں اسم شریف’’اللہ‘‘ کی تکرار اس لیے ہے کہ جو اس صفت کے ساتھ متصف نہیں ہے،وہ الوہیت کے استحقاق سے الگ اور جدا ہے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ ﴿اَللّٰہُ الصَّمَدُ﴾ میں اسم مبارک صمد’’اللہ‘‘ کی صفت ہے،لیکن سیاقِ کلام اس بات کاتقاضا کرتا ہے کہ ہر جملہ مستقل ہو۔ ابن مسعود اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے کہا ہے کہ صمد وہ ہے جس کی آنتیں نہ ہوں۔ ﴿لَمْ یَلِدْ ﴾ کے معنی یہ ہیں کہ کوئی اس کا بیٹا نہیں جس طرح مریم کا بیٹا تھا۔﴿لَمْ یُوْلَدْ﴾ کے معنی یہ ہیں کہ وہ کسی کا بیٹا نہیں،جس طرح عیسیٰ علیہ السلام و عزیر علیہ السلام پیدا ہوئے،یہ اس لیے کہ کوئی اس کا ہم جنس نہیں ہے اور سابقًا و لاحقًا اس کی طرف عدم کی نسبت محال ہے۔ قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہے: مشرکین عرب کہتے تھے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں،یہود نے کہا کہ عزیر فرزندِ خدا ہیں اور نصاریٰ نے کہا کہ مسیح ابن اللہ ہیں تو اللہ تعالیٰ نے آیت ﴿لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَد﴾ سے ان کی تکذیب کی۔[2] پھر فرمایا: ﴿لَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَحَدٌ﴾ یعنی اللہ کے جوڑ کا کوئی نہیں ہے،جیسے فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیْئٌ﴾’’کفوا‘‘ کلامِ عرب میں نظیر کے معنی میں ہے۔ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ہے کہ اس کا معنی ہے کہ اس کی کوئی مثل نہیں ہے۔الغرض کفار کے کلام کا حاصل اشراک،تشبیہ اور تعطیل ہے اور یہ سورت اس سب کو دفع کرتی ہے۔
[1] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۴۹۷۴،۴۹۷۵) [2] فتح البیان (۱۵/۴۵۰)