کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 247
وہ ہے،جس کا جوف یعنی اندرون شکم نہ ہو۔[1] حافظ ابوالقاسم الطبرانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’السنۃ ‘‘ میں ان اقوال کو ذکر کرنے کے بعد کہاہے کہ یہ سب معانی صحیح ہیں۔یہ ہمارے رب کی صفات ہیں۔تمام لوگ اسی کے محتاج ہیں،وہ اپنی سرداری میں انتہا کو پہنچ گیا ہے۔وہ صاحبِ جوف ہے نہ کھاتا پیتا ہے۔وہ مخلوق کے بعد بھی باقی رہے گا۔امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اسی طرح کہا ہے۔[2] اس کے بعد اس سورت کی تیسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے والدین،بیوی اور اولاد کی نفی فرمائی۔مجاہد رحمہ اللہ نے کہا کہ ﴿کُفُوًا﴾ سے مراد بیوی ہے۔جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَنّٰی یَکُوْنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَمْ تَکُنْ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ وَ خَلَقَ کُلَّ شَیْئٍ﴾ [الأنعام: ۱۰۱] ‘’یعنی جب وہ ہر شے کا خالق و مالک ٹھہرا تو پھر خلق میں اس کا نظیر کہاں سے آئے گاجو اس کی برابری کر سکے۔‘‘ تعالیٰ اللّٰہ عن ذٰلک و تقدس و تنزہ۔ نیز فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا * لَقَدْ جِئْتُمْ شَیْئًا اِدًّا* تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ ھَدًّا* اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا* وَ مَا یَنْبَغِیْم لِلرَّحْمٰن اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا* اِنْ کُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا* لَقَدْ اَحْصٰھُمْ وَعَدَّھُمْ عَدًّا * وَ کُلُّھُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًا﴾ [مریم: ۸۸ تا ۹۵] [اور انھوں نے کہا رحمان نے کوئی اولاد بنا لی ہے،بلاشبہہ یقینا تم ایک بہت بھاری بات کو آئے ہو،آسمان قریب ہیں کہ اس سے پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ڈھے کر گر پڑیں،کہ انھوں نے رحمان کے لیے کسی اولاد کا دعویٰ کیا،حالانکہ رحمان کے لائق نہیں کہ وہ کوئی اولاد بنائے،آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے،وہ رحمان کے
[1] تفسیر ابن کثیر (۴/۷۴۲) [2] الأسماء والصفات (۷۹)