کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 244
((وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ! لَقَدْ سَأَلَہُ بِاسْمِہِ الْأَعْظَمِ الَّذِيْ إِذَا سُئِلَ بِہِ أَعْطٰی وَ إِذَا دُعِيَ بِہِ أَجَابَ)) [اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میر ی جان ہے! اس شخص نے اللہ تعالیٰ کے اسمِ اعظم کے ساتھ سوال کیا ہے کہ جب اس سے اس نام کے ساتھ سوال کیا جائے تو وہ عطا کرتا ہے اور جب اس کے ساتھ دعا کی جاتی ہے تو وہ قبول کرتا ہے] [1] (رواہ أہل السنن،و قال الترمذي: حسن غریب) 20۔جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعًا مروی حدیث میں ہے: ’’جو شخص مغرب کے بعد دس مرتبہ اس سورت کو پڑھے گا،وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے اور جس حورِ عین سے چاہے اس سے بیاہا جائے۔‘‘ [2] (رواہ أبو یعلیٰ) حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کی سند پر کچھ کلام نہیں کیا ہے۔ 21۔جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے گھر اور منزل میں داخل ہوتے وقت اس سورت کو پڑھے گا تو اس کے گھر والوں اور اس کے ہمسائیوں سے فقر دور ہو جائے گا۔‘‘[3] (رواہ الطبراني) لیکن اس کی اسناد ضعیف ہے۔ 22۔انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اکثر و بیشتر سورۃالاخلاص کی تلاوت کی فضیلت سے متعلق مرفوعًا حدیث مروی ہے: ’’وہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تبوک میں تھے۔اس دن سورج طلوع ہوا تو اس دن جیسی روشنی،چمک اور شعاع ہم نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔جبریل علیہ السلام نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم
[1] سنن أبي داؤد،رقم الحدیث (۱۴۹۳) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۳۴۷۵) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (۳۸۵۷) سنن النسائي الکبرٰی (۲/۹۰) [2] مسند أبي یعلیٰ (۳/۳۳۲) علامہ ہیثمی نے’’مجمع الزوائد‘‘ (۱۰/۱۰۲) میں کہا ہے کہ اس کی سند میں موجود راوی عمر بن نبہان متروک ہے۔ [3] المعجم الکبیر للطبراني (۲/۳۴۰) یہ حدیث ذکر کرنے کے بعد حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس کی سند میں مروان بن سالم راوی متروک ہے۔