کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 238
4۔اس سورت کی فضلیت میں اگر صحیحین وغیرہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث کے سوا کچھ بھی نہ ہوتا تو یہی ایک حدیث سب سے کفایت کرتی،یعنی وہ حدیث جس میں یہ ذکر ہے :
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ایک چھوٹے سے لشکر میں بھیجا تھا۔جب وہ اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتا تو اسی سورت پر قراء ت کا اختتام کرتا۔جب وہ لشکر لوٹ کر آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی کارگزاری کا ذکر کیا گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے دریافت کرو وہ یہ کام کس لیے کرتا ہے؟ اس سے پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا کہ یہ (سورت) رحمان کی صفت ہے اور میں اسے پڑھنا پسند کرتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے خبر دو کہ اللہ تعالیٰ اس کو پسند کرتا ہے۔‘‘[1] (ھٰذا لفظ البخاري في کتاب التوحید)
5۔اسی طرح ایک دوسری روایت صحیح بخاری کی کتاب الصلاۃ میں انس رضی اللہ عنہ سے یوں مروی ہے:
’’ایک انصاری شخص مسجدِ قبا میں نماز کی امامت کرواتا تھا۔نماز میں جو سورتیں پڑھی جاتی ہیں،جب وہ انصاری ان میں سے کوئی سورت پڑھتا تو پہلے ﴿قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ﴾ یعنی سورۃالاخلاص پڑھتا،پھر کوئی اور سورت پڑھتا اور ہر رکعت میں اسی طرح کیا کرتا تھا۔اس کے ساتھیوں نے اس سے اس بارے میں گفتگو کی کہ تو نماز کو اس سورت سے کیوں شروع کیا کرتا ہے؟ کیا تو اس کو کافی نہیں سمجھتا کہ اس کے ساتھ دوسری سورت بھی پڑھتا ہے؟ یا تو تو اسی سورت کو پڑھا کر یا اس کا پڑھنا چھوڑ دے اور دوسری سورت پڑھ۔اس نے کہا: میں اس سورت کا پڑھنا ہرگز نہ چھوڑوں گا۔اگر تمھاری خوشی ہو تو میں امامت کراؤں اور اگر خوشی نہ ہو تو میں امامت کرانا ترک کر دوں۔وہ لوگ اس انصاری کو افضل جانتے تھے،لہٰذا اس کے سوا کسی کا امامت کروانا پسند نہیں کرتے تھے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر جانا ہوا تو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ صورتِ حال رکھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے فلاں ! تجھے کون سی چیز مانع ہے کہ تو اپنے ساتھیوں کے حکم پر چلے؟ نیز تونے نماز کی ہر رکعت میں اس سورت کا لزوم کس لیے اختیار کیا ہے؟ اس نے جواب دیا:’’إِنِّيْ أُحِبُّھَا‘‘ [میں اس سورت (سورۃ الاخلاص) سے محبت کرتا ہوں ] آپ صلی اللہ علیہ وسلم
[1] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۶۹۴۰) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۸۱۳)