کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 235
حالانکہ ان الفاظ کے موافق عقیدہ رکھنے میں کبھی تو نصوصِ صریحہ و محکمہ کا انکار لازم آتا ہے اور کبھی بدعت کا اسیر ہونا پڑتا ہے،کیونکہ جب یہ الفاظ اور بحث و خوض صحابہ،تابعین اور تبع تابعین سے ثابت نہیں ہے اور یہ عبارت نصِ قرآن کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کی تنزیہ کی غرض سے بنائی گئی ہے تو یہ سراسر محدث اور بدعت ہوئی،اگرچہ ان کے معانی تنزیہ کے منافی نہ ہوں۔رحمان کا عرش پر مستوی ہونا نصِ قرآن اور ادلہ سنتِ مطہرہ،جو معنوی،بلکہ لفظی تواتر کی حد کو پہنچے ہوئے ہیں،سے ثابت ہے،تو پھر یہ استوا کی نفی یعنی آیت ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾ [طٰہٰ: ۵][وہ بے حد رحم والا عرش پر بلند ہوا] کا انکار نہیں تو پھر کیا ہے…؟! اسی طرح استوا کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا علو اور اس کا ساری مخلوق سے مبائن ہونا قرآن و حدیث کے دلائل و براہین سے بہ ذات خود ثابت ہے،تو جہتِ علو کی نفی چہ معنی دارد؟ مانا کہ جہت کا لفظ کسی آیت یا مرفوع حدیث میں نہیں آیا ہے اور سلف نے اس کے ساتھ تکلم نہیں کیا ہے،لیکن علو،علی،اعلیٰ تو بہرحال قرآن و حدیث سے منصوص ہے اور جہت کے انکار سے علو کا انکار لازم نہیں آتا ہے۔ہاں اگر کوئی علو کا قائل ہے مگر جہت کا لفظ نہیں بولتا تو حدیث پر عامل ہے۔اسی طرح کتاب اللہ اور سنتِ مطہرہ میں سورۃالاخلاص کے الفاظ کے سوا جو اسماے حسنیٰ بیان ہوئے ہیں،وہ اللہ تعالیٰ کی شناخت کے لیے کفایت کرتے ہیں،جیسے علیم،سمیع،بصیر،قدیر،رحیم،کریم،غفور،قہار اور اس جیسے دیگر اسما اور ہم کو یہ حکم ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو اس کے ناموں سے پکاریں۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ اَیًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی﴾ [بني إسرائیل: ۱۱۰] [کہہ دے اللہ کو پکارو یا رحمان کو پکارو،تم جس کو بھی پکارو گے،سو یہ بہترین نام اسی کے ہیں ] یہ ایک قسم کے اوصاف ہیں،جبکہ دوسری قسم کے وصف وہ ہیں جو استوا کے ہم جنس ہیں،جیسے ید،عین اور قدم وغیرہ،یہ بھی بہت سی صفات ہیں۔امام بیہقی رحمہ اللہ نے کتاب’’الأسماء والصفات‘‘ اسی باب میں چھان بین کر کے لکھی ہے۔کتاب’’الجوائز والصلات من جمع الأسامي والصفات‘‘ بھی مع معانی ان اسما و صفات پر مشتمل ہے۔سو یہی اسما و صفات اللہ تعالیٰ کی معرفت و شناخت کے لیے کفایت کرتے ہیں۔ان کے سوا جتنے بھی الفاظ اور عبارتیں ہیں،وہ اہلِ کلام کی وضع کردہ ہیں،جو سب