کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 234
2۔جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ‘’ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا:’’انسب لنا ربک‘‘ [ہمیں اپنے رب کا نسب بتاؤ] اس پر یہ سورت [اخلاص] نازل ہوئی۔‘‘ [1] ٔخرجہ الطبراني والبیہقي و أبو نعیم و غیرھم،و حسن السیوطي إسنادہ) 3۔سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی الفاظ یہ ہیں : ’’قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:’’انسب لنا ربک‘‘ [ہمیں اپنے رب کا نسب بتاؤ] اس پر یہ سورت (اخلاص) نازل ہوئی۔‘‘[2] (أخرجہ أبوالشیخ والطبراني) 4۔سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ مروی ہیں : ’’یہودی رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے،ان میں کعب بن اشرف اور حیی بن اخطب بھی تھا،اس نے کہا:’’یا محمد! صف لنا ربک الذي بعثک‘‘ [اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمیں اپنے اس رب کا وصف بتاؤ،جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا ہے] اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔‘‘[3] (رواہ البیہقي) مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نسب کا بیان پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر نہ چھوڑا،بلکہ اس عظیم الشان اور رفیع المکان چیز کو خود بیان کیا۔اب جو شخص ہم سے پوچھے کہ تمھارے رب کا نسب یا وصف کیا ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اس کے یہی اوصاف بیان کریں،جو اس سورت میں ذکر ہوئے ہیں اور اپنی طرف سے کوئی مبتدع عبارت نہ نکالیں،جس طرح متکلمینِ اسلام نے رب العالمین کی شناخت کے لیے جدید الفاظ ایجاد کیے اور نصوص میں ذکر شدہ الفاظ چھوڑ دیے ہیں،مثلاً وہ عقائد کی کتابوں میں معبود برحق کی یوں تعریف کرتے ہیں کہ وہ جسم ہے نہ جوہر اور نہ عرض،متحیز ہے نہ متبعض،داخل عالم ہے نہ خارج عالم،جہت میں ہے نہ عرش پر اور اسی طرح کے دیگر الفاظ،
[1] المعجم الأوسط للطبراني (۶/۲۵) الأسماء والصفات للبیہقي (۲/۱۴۸) حلیۃ الأولیاء لأبي نعیم (۱۰/۱۱۳) اس کی سند میں’’مجالد بن سعید‘‘ ضعیف ہے۔ [2] العظمۃ لأبي الشیخ (۱/۳۷۶) برقم (۸۹) اس میں یہ روایت ابو وائل شفیق بن سلمہ تابعی سے مروی ہے۔واللّٰہ أعلم [3] الأسماء والصفات للبیہقي (۲/۳۸) اس کی سند بھی ضعیف ہے،لیکن ان تمام روایات و اسانید کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے۔