کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 232
نے غلطی کی،بلکہ یہ سورت محکم ہے۔اس سورت میں نسخ کا دخول محال ہے۔یہ تواخلاصِ توحید کی تاکید کرتی ہے،اس لیے اس کو سورۃالاخلاص کہتے ہیں۔ اس سورت میں شرک و کفر سے براء ت محض ہے۔اس سورت میں یہ بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں یہ کہہ دیا کہ میں ہرگز تمھاری موافقت نہیں کروں گا،کیونکہ تمھارا دین بالکل باطل ہے اور وہ تمھارے ساتھ مختص ہے،اس باطل میں میری شرکت کس طرح ہو سکتی ہے،جبکہ تم اس دینِ برحق میں میری شرکت نہیں کرتے ہو؟ تو یہ انتہا درجے کی براء ت ہے۔آخر وہ اقرار کہاں ہے،جس کی بنیاد پر نسخ کا دعویٰ کیا جائے یا یہ تخصیص ٹھہرے۔اس براء ت کا بھی یہی حکم ہے،جو براء ت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین و اہلِ سنت اور اہلِ بدعت اور گمراہ لوگوں کے درمیان ہے۔ خلفا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل اولاد نے بھی مشرکین و کفار سے یہی بات کہی تھی: ﴿لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ﴾ تمھارے لیے تمھارا دین اور ہمارے لیے ہمارا دین ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انھوں نے ان کو ان کی بدعت پر مقرر رکھا تھا،بلکہ انھوں نے یہ کہہ کر اپنی براء ت کا اظہار کیا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ مشرکین کے خلاف جہاد کرتے تھے اور مبتدعین کا رد کرتے تھے۔انتھیٰ۔ما قالہ ابن القیم ملخصًا [1] اب جو مسلمان بہ خوبی اس سورت کے معنی سمجھ لے گا،وہ شرک اور غیراللہ کی عبادت سے بری ہو جائے گا۔رہا وہ شخص جس نے اس سورت کو پڑھا اور سمجھا،مگر اس کے موافق عمل کیا نہ اعتقاد رکھا تو وہ منافق ہے یا مشرک و کافر،اس کا ظاہر اس کے باطن کے موافق نہ ہوا۔عیاذاً باللّٰہ
[1] (بدائع الفوائد لابن القیم: ۱/۱۴۵،۱۴۸)