کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 230
پوجتے ہو اور نہ میں اپنی باقی عمر میں تمھاری بات مانوں گا اور نہ تم اس کو پوجو گے جس کو میں پوجتا ہوں۔یہ وہی لوگ ہیں،جن کے حق میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَ لَیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْھُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّ کُفْرًا﴾ [المائدۃ: ۶۴] [وہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو سرکشی اور کفر میں ضرور بڑھا دے گا] [1] امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ نے ﴿لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ﴾ سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ کفر ملتِ واحدہ ہے۔یہودیوں نے نصاریٰ سے اور نصاریٰ نے یہودیوں سے یہ ملت اخذ کی ہے،کیونکہ ان دونوں کے حسب و نسب آپس میں ملتے جلتے ہیں،جس کے وہ باہم وارث ہوتے ہیں،غرضکہ اسلام کے سوا جتنے بھی ملل و نحل اور ادیان و مذاہب ہیں،باطل ہونے میں سب ایک جیسے ہیں۔[2] حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’بدائع الفوائد‘‘ میں اس آیت کے تحت دس مسئلے لکھے ہیں اور کہا ہے کہ نفی محض اس سورتِ کریمہ کا خاصہ ہے،کیونکہ یہ سورت شرک سے براء ت ہے،جیسے حدیث میں اس کا یہ وصف بیان ہوا ہے کہ یہ شرک سے بے زاری ہے۔[3] اس سورت کامقصودِ اعظم یہی بیزاری ہے جو موحدین و مشرکین کے درمیان مطلوب ہے۔لہٰذا جانبین کے درمیان براء ت مطلوبہ کی تحقیق کے لیے حرفِ نفی لایا گیا ہے،حالانکہ یہ صریحًا اثبات کو متضمن ہے،یعنی ﴿لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ﴾ براء ت محض ہے اور ﴿وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ﴾ میں معبود برحق کا اثبات ہے،جس کی عبادت سے مشرکین بری ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عبادت کرتے ہیں۔لہٰذا یہ سورت نفی و اثبات کے معنی کو متضمن ہونے کے سبب امام الحنفا (ابراہیمu) کے اس قول کے مطابق ہے: ﴿اِِنَّنِیْ بَرَآئٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ* اِِلَّا الَّذِیْ فَطَرَنِیْ﴾ [الزخرف: ۲۶،۲۷]
[1] صحیح البخاري: کتاب التفسیر،باب تفسیر سورۃ الکافرون۔ [2] (تفسیر ابن کثیر (۸/۵۰۷) [3] مسندأحمد (۵/۴۶۵) سنن أبي داؤد،رقم الحدیث (۵۰۵۵) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۳۴۰۳) سنن النسائي الکبریٰ (۶/۲۰۰) صحیح الترغیب والترھیب (۱/۱۴۷)