کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 214
﴿اِیَّاکَ نَعْبُدُ﴾ کے معنی یہ ہوئے:’’إِیَّاکَ نُوَحِّدُ‘‘ یعنی ہم اپنے رب کے ساتھ معاہدہ کرتے ہیں،فرشتہ ہو یا پیغمبر،پیر ہو یا شہید،جن ہو یا انس اور شیطان ہو یا کوئی نشان،ہم اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہیں کرتے ہیں۔جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فرمایا ہے: ﴿وَ لَا یَاْمُرَکُمْ اَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلٰٓئِکَۃَ وَ النَّبِیّٖنَ اَرْبَابًا اَیَاْمُرُکُمْ بِالْکُفْرِ بَعْدَ اِذْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ﴾ [آل عمران: ۸۰] [اور نہ یہ (حق ہے) کہ تمھیں حکم دے کہ فرشتوں اور نبیوں کو رب بنا لو،کیا وہ تمھیں کفر کا حکم دے گا،اس کے بعد کہ تم مسلم ہو؟] اب اس آیت میں غور و فکر کر کے حقِ ربوبیت کو پہچاننا چاہیے،جس حق کو نام کے مومن اور جھوٹے مسلمان ہر کسی کی طرف منسوب کرتے ہیں۔اگرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم انبیا و رسل کے ساتھ یہ کام کرتے تواسلام کے بعد کافر ہو جاتے،تو اب جو شخص سالار مدار اور قطب صاحب وغیرہ کے ساتھ یہ کام کرے،بھلا وہ کیوں کر کافر نہ ہوگا،بلکہ وہ تو کافر سے بھی بدتر ہوگا،کیونکہ زمانہ جاہلیت کے لوگوں نے اصنام و اوثان کے ساتھ جو کام نہیں کیے تھے،وہ کام آج نام کے مسلمان اور جھوٹے کلمہ گو اولیا اور ان کی قبروں کے ساتھ کرتے ہیں۔ان گور پرستوں اور پیر پرستوں نے زمانہ جاہلیت کے ان جاہلوں کے بھی کان کتر دیے۔ پدرم جنت جاوید بہ گندم بفروخت ناخلف باشم اگر من بجوے نفروشم [میرے باپ نے گندم کے عوض جنت جاوید بیچ ڈالی،میں ناخلف اور نالائق ہوں گا،اگر میں اس کو جو کے بدلے فروخت نہ کروں ] ﴿إِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ کی تفسیر: لفظِ ﴿إِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ میں دو امر ہیں،ایک اللہ کی طرف اعانت کا سوال اور یہ اس پرتوکل اور بھروسا ہے اور دوسرا اپنی طاقت و قوت سے بے زاری۔اللہ کی طرف سے اعانت طلب کرنا،جیسے اوپر گزر چکا ہے،یہ بندے کے اپنے نصف حصے سے ہے۔