کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 212
درگور‘‘ غریب [اجنبی] ہوگیا ہے۔وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ہمارے ساتھ ان کی یہ عداوت اور ان کا ہمارے خون،اموال اور عزتوں کو حلال کر لینا تکفیر و قتال کی وجہ سے نہیں ہے،بلکہ اس تکفیر و قتال کا آغاز خود ان کی طرف سے ہے،وہ ہم سے ان آیات پر لڑتے ہیں : ﴿فَلاَ تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا﴾ [الجن: ۸۱] [پس اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو] ﴿اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰی رَبِّھِمُ الْوَسِیْلَۃَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ﴾ [بني إسرائیل: ۵۷] [وہ لوگ جنھیں یہ پکارتے ہیں وہ (خود)اپنے رب کی طرف وسیلہ ڈھونڈتے ہیں،جو ان میں سے زیادہ قریب ہیں ] ﴿لَہٗ دَعْوَۃُ الْحَقِّ وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ لَا یَسْتَجِیْبُوْنَ لَھُمْ بِشَیْئٍ اِلَّا کَبَاسِطِ کَفَّیْہِ اِلَی الْمَآئِ لِیَبْلُغَ فَاہُ وَ مَا ھُوَ بِبَالِغِہٖ وَ مَا دُعَآئُ الْکٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ﴾ [الرعد: ۱۴] [برحق پکارنا صرف اسی کے لیے ہے اور جن کو وہ اس کے سوا پکارتے ہیں،وہ ان کی دعا کچھ بھی قبول نہیں کرتے،مگر اس شخص کی طرح جو اپنی دونوں ہتھیلیاں پانی کی طرف پھیلانے والا ہے،تاکہ وہ اس کے منہ تک پہنچ جائے،حالانکہ وہ اس تک ہرگز پہنچنے والا نہیں اور نہیں ہے کافروں کا پکارنا مگر سراسر بے سود] یہ تھے بعض وہ معانی جو تمام مفسرین کے اجماع سے ﴿مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ کی تفسیر میں منقول ہیں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سورت’’إذا السّماء انفطرت‘‘ میں خود اس کی یہی تفسیر فرمائی ہے،جس طرح اوپر گزر چکا ہے۔ ’’وَ لَا عِطْرَ بَعْدَ عَرُوْسٍ وَ لَیْسَ وَرَائَ عَبَّادَانِ قَرْیَۃٌ‘‘ [عروس (نام) کے بعد عطر نہیں ہے اور عبادان سے اوپر کوئی بستی نہیں ہے] دستور یہی ہے کہ یقینا حق تو باطل کے (بیان کے) ساتھ ہی واضح ہوتا ہے اور اشیا اپنی ضد سے واضح ہوتی اور پہچانی جاتی ہیں۔