کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 210
حالاں کہ اللہ تعالیٰ ہر شے کا مالک ہے،کیا قیامت کا یہ دن اور کیا اس کا غیر…!! یہ وہ ایسا گراں قدر مسئلہ ہے کہ اس کی معرفت سے جنت کا داخلہ نصیب ہوتا ہے اور اس کے جہل سے دوزخ میں جانا پڑتا ہے۔ بعض اہلِ علم نے کہا ہے: ’’فَیَا لَھَا مِنْ مَسْئَلَۃٍ لَوْ رَحَلَ الرَّجُلُ فِیْھَا أَکْثَرَ مِنْ عِشْرِیْنَ سَنَۃً لَمْ یُوْفِھَا حَقَّھَا‘‘[1] ’’یعنی اگر کوئی شخص اس مسئلے کو معلوم کرنے کے لیے بیس برس تک سفر کرے تو بھی اس مسئلے کا پورا حق ادا نہ ہو۔‘‘ اب کہاں ہے یہ معنی اور کہاں ہے قرآن کے صراحت کردہ اس مسئلے پر ایمان لانا؟! اس کے ساتھ ہی ملاحظہ کریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا: ((یَا فَاطِمَۃُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ! لَا أُغْنِيْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا)) [2] [اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا! میں اللہ کے ہاں تیرے کچھ کام نہیں آ سکتا] اب ان اقوال کے ساتھ قصیدہ بردہ کے مولف کا یہ قول بھی دیکھیں : وَ لَنْ یَّضِیْقَ رَسُوْلَ اللّٰہِ! جَاھُکَ بِيْ إِذَا الْکَرِیْمُ تَحَلّٰی بِاسْمِ مُنْتَقِمٖ[3] فَإِنَّ لِيْ ذِمَّۃً مِّنْہُ بِتَسْمِیَتِيْ مُحَمَّدًا وَھُوَ أَوْفٰی الْخَلْقِ بِالذَّمَمٖ إِنْ لَّمْ یَکُنْ فِيْ مَعَادِيْ آخِذاً بِیَدِيْ فَضْلاً وَ إِلَّا فَقُلْ یَازَلَّۃَ الْقَدَمٖ[4] [اے اللہ کے رسول! میری (شفاعت) کے باعث آپ کے بلند مرتبے میں کمی واقع نہیں ہو گی۔جب رب کریم انتقام لینے والے کے نام کے ساتھ جلوہ گر ہو گا۔کیونکہ میرا نام بھی محمد رکھا گیا ہے،اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں میرے لیے ایک عہد ہے
[1] یہ امام محمد بن عبد الوہاب نجدی رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں۔دیکھیں : مجموع مؤلفات الإمام محمد بن عبد الوہاب (۵/۱۳) [2] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۲۶۰۲) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۲۰۶) [3] قصیدۃ البردۃ (۱۵۴) [4] قصیدۃ البردۃ (۱۴۷۔۱۴۸)