کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 146
وہ ہر روز کم ہو جاتی تھیں۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ شیطان کا کام ہے۔میں اس کی تاک میں رہا اور تین راتوں تک میں ہر رات اس کو پکڑ لیتا،پھر اس کی خوشامد پر چھوڑ دیتا۔آخر اس نے بتایا کہ تو آیۃالکرسی اور سورۃ البقرہ کی آخری آیات پڑھا کر شیطان نہیں آئے گا۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس صورتِ حال سے آگاہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((صَدَقَ الْخَبِیْثُ وَھُوَ کَذُوْبٌ)) [اس خبیث نے سچ کہا،حالانکہ وہ خود بہت جھوٹا ہے] اس کے بعد میں اس (آیۃالکرسی اور آخرِ سورۃ البقرہ) کی تلاوت کرتا تھا تو ان (کھجوروں) میں کوئی نقصان اور کمی نہیں دیکھتا تھا۔[1] (أخرجہ الحاکم والطبراني وأبو نعیم والبیہقي کلاھما فيالدلائل) 7۔اسی طرح ابو اسید ساعدی رضی اللہ عنہ کے باغ سے ایک غول کھجوریں چرا کر لے جایا کرتا تھا۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ غول (شیطان) کا کام ہے۔میں نے جب اسے پکڑا تو وہ مجھے آیۃالکرسی پڑھنا بتا گیا۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے آگاہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((صَدَقَتْ وَھِيَ کَذُوْبٌ)) [2] (أخرجہ الطبراني وأبو نعیم) [وہ خود سخت جھوٹا ہے اور اس نے تجھ سے سچی بات کہی ہے] 8۔اسی طرح کا ایک قصہ حاکم نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے غلے کی بابت روایت کیا ہے۔[3] (وأخرجہ أیضا أحمد وابن أبي شیبۃ والترمذي وأبو نعیم بطولہ،وروی البیہقي عن بریدۃ بنحوہ) یہ سب روایات غول (جنات) کے وجود پر دلیل ہیں۔ قاموس میں لکھا ہے: ’’الغول بالضم الھلکۃ والداھیۃ والسِّعلاۃ والحیۃ وساحرۃ الجن وشیطان یأکل الناس،أو دابۃ رأتھا العرب وعرفتھا،وقتلھا تأبط شراً ومن یتلون
[1] المستدرک للحاکم (۱/ ۷۵۱) المعجم الکبیر للطبراني (۲۰/۵۱) [2] مسند أحمد (۵/ ۴۲۳) المعجم الکبیر للطبراني (۱۹/۲۶۳) [3] مسند أحمد (۵/۴۲۳) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۲۸۸۰) مصنف ابن أبي شیبۃ (۶/۹۴) المستدرک للحاکم (۳/ ۵۲۰)