کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 134
الدنیا والآخرۃ،والعیاذ بوجہ اللّٰہ تعالیٰ،فإن اللّٰہ تعالیٰ یقول،وھو أصدق القائلین: ﴿مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیْئٍ﴾ وکذا قال: ﴿وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْن﴾ وکذا قال صلی اللّٰه علیہ وسلم : ((خُذْ مِنَ الْقُرْآنِ مَا شِئْتَ لِمَنْ شِئْتَ))و روایات العقوبۃ لمن تھاون بالقرآن العظیم وأساء الظن کثیرۃ جداً‘‘[1]
[اللہ کی کتاب کے خواص میں تہاون اور سستی کرنے سے بچو،کیوں کہ اعتقادی تساہل و غفلت دنیا و آخرت کے خسارے کا باعث بنتاہے۔ہم اس سے اﷲ کی پناہ چاہتے ہیں۔پس یقینا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے،اور وہ اصدق القائلین ہے:
﴿مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیْئٍ﴾ [الأنعام: ۳۸]
[ہم نے کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی]
جی ہاں ! اس نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے:
﴿وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْن﴾ [الأنعام: ۵۹]
[کوئی تر ہے اور نہ خشک مگر وہ ایک واضح کتاب میں ہے]
نیز رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم نے فرمایا:
((خُذْ مِنَ الْقُرْآنِ مَا شِئْتَ لِمَنْ شِئْتَ)) [2]
[قرآن سے جو چاہو جس کے لیے چاہو لے لو]
جو قرآن عظیم کے ساتھ تہاون و سستی کا مظاہرہ کرے اور اس کے متعلق بدگمانی کا شکار ہو،اس کی سزا کے متعلق روایات بہت زیادہ ہیں ]
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے کہا ہے:
’’کل داء لہ دواء،وأنا أحسنت المداواۃ بالفاتحۃ فوجدت لھا تأثیراً عجیباً في الشفاء،وذٰلک أني مکثت بمکۃ مدۃ یعتریني أدواء،لا أجد لھا طبیبا ولا مداویاً،فقلت: یا نفسي! دعیني دعیني أعالج نفسي بالفاتحۃ ففعلت فأریٰ لھا تأثیراً عجیباً،وکنت أصف ذٰلک لمن اشتکی
[1] خزینۃ الأسرار (ص: ۱۲۲)
[2] یہ بے اصل روایت ہے۔دیکھیں : سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ،رقم الحدیث (۵۵۷)