کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 133
میں تمھارا کیا گمان ہے؟ پھر اس میں سے بھی سورۃ الفاتحہ،جس جیسی کوئی سورت قرآن اور دیگر کتابوں میں نہیں اتری ہے،کیوں کہ یہ سورۃ الفاتحہ تمام کتابوں کے معانی کو متضمن ہے۔یقینا یہ اللہ تعالیٰ کے اسما کے اصول و مجامع کے ذکر اور آخرت کے اثبات پر مشتمل ہے۔اس میں توحید کا بیان ہے،رب تعالیٰ سے اعانت اور ہدایت کی طلب کا محتاج ہونے کا ذکر ہے۔اس میں افضل دعا صراط مستیقم کی طرف طلبِ ہدایت کا بیان ہے۔وہ صراط مستقیم جو اللہ تعالیٰ کی کمال معرفت اور اس کی توحید اور اس کی عبادت کو متضمن ہے۔یہ سب کچھ اس کے حکم پر عمل کرنے اور اس کی نہی سے اجتناب کرنے اور اس پر استقامت اختیار کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔نیز سورۃ الفاتحہ مخلوق کے اوصاف کو متضمن ہے اور ان کو دو گروہوں میں تقسیم کرتی ہے: ایک وہ جو حق کی معرفت اور اس پر عمل کرنے کی وجہ سے’’منعم علیہ‘‘ ہے اور دوسرا گروہ حق کو پہچاننے کے بعد اس سے انحراف کرنے اور اس کی عدمِ معرفت کے سبب گمراہ ہونے کی وجہ سے’’مغضوب علیہ‘‘ ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ سورت قدر،شرع،اسما،آخرت،توبہ،تزکیہ نفس،اصلاحِ قلب اور تمام اہلِ بدعت کا رد جیسی چیزوں کو متضمن ہے۔اپنی اسی طرح کی شان و عظمت کی وجہ سے یہ سورت اس لائق ہے کہ اس کے ساتھ ہر بیماری سے شفا طلب کی جائے] تفسیر فتح البیان میں سورۃ الفاتحہ سے اثباتِ توحید پر تیس (۳۰) دلائل استنباط کیے گئے ہیں۔[1] بہ ہرحال یہ مبارک سورت اسقام و آلام سے عافیت بخشتی ہے اور جلد صحت و تندرستی عطا کرتی ہے۔اس کے حق میں’’شفاء من کل داء‘‘ [ہر بیماری کی شفا] آیا ہے۔اگر بیمار اس کو پاک برتن میں لکھ کر پانی سے محو کر کے اپنا منہ دھوئے تو اللہ کے حکم سے شفا پائے اور جس کے دل میں تقلب یا شک یا وجع(درد) یا خفقان ہو تو وہ اسے لکھ کر پانی میں دھو کر پی جائے تو الم و تکلیف دور ہو جاتی ہے۔ تیمی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’فإیاک والتھاون بخواص کتاب اللّٰہ تعالیٰ أو التساہل في الاعتقاد تخسر
[1] فتح البیان في مقاصد القرآن (۱/ ۵۶)