کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 126
[جب توسورۃ الفاتحہ کی قراء ت کرے تو ایک سانس میں بغیر توقف کیے بسم اللہ الرحمن الرحیم سمیت قراء ت کرو] [1] پھر اپنی مسلسل بالحلف متصل سند کے ساتھ ابوالحسن کناری سے شہر موصل میں ۶۰۱؁ سے تا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حالفاً عن جبریل حالفاً عن میکائیل حالفاً عن إسرافیل یوں روایت کیا ہے: ((قال اللّٰہ تعالی: یا إسرافیل! بعزتي وجلالي وجودي وکرمي من قرأ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم متصلۃ بفاتحۃ الکتاب مرۃ واحدۃ،اشھدوا علي أني قد غفرت لہ،وقبلت منہ الحسنات،وتجاوزت عنہ السیآت،ولا أحرق لسانہ بالنار،وأجیرہ من عذاب القبر وعذاب النار وعذاب یوم القیامۃ والفزع الأکبر،ویلقاني قبل الأنبیاء والأولیاء أجمعین))انتھیٰ۔ [اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے اسرافیل! میری عزت،میرے جلال،میرے کرم اور میری سخاوت کی قسم! جس نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کو سورۃ الفاتحہ کے ساتھ ملا کر ایک ہی دفعہ پڑھا،تم گواہ ہو جاؤ کہ میں نے اسے بخش دیا ہے۔میں نے اس کی نیکیاں قبول کر لیں اور اس کے گناہ بخش دیے۔میں اس کی زبان کو آگ سے نہیں جلاؤں گا۔میں اسے عذابِ قبر،عذابِ نار،قیامت کے دن کے عذاب اور بہت بڑی گھبراہٹ سے بچاؤں گا اور وہ تمام انبیا و اولیا سے پہلے مجھ سے ملاقات کرے گا] میں کہتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث کسی کتابِ حدیث میں نہیں دیکھی۔البتہ مشائخ کی ایک جماعت نے’’الرحیم‘‘ کے میم کا’’الحمد‘‘ کے لام سے اتصال اپنے اعمال میں لکھا ہے اور اسے مجرب بتایا ہے،جیسے صاحب’’قول جمیل‘‘ شرجی اور محمد نازلی وغیرہ۔[2] مذکورہ بالا روایت کی سند کے ہر راوی نے حلف کیا ہے۔واللّٰه اعلم ماجرا کیا ہے۔اتصال سے ہر شخص نے میم کا لام سے اتصال سمجھا ہے،لیکن لفظِ حدیث عام ہے۔[3]
[1] لیکن یہ طریقہ مسنون نہیں،بلکہ ہر آیت پر وقف کرنا اور انھیں علاحدہ علاحدہ پڑھنا سنتِ نبویہ ہے۔دیکھیں : سنن الترمذي،رقم الحدیث (۴۰۰۱) مسند أحمد (۶/ ۳۰۲) [2] خزینۃ الأسرار (ص: ۱۰۹) [3] یعنی برتقدیر ثبوت روایت [مولانا عطاء اﷲ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ ] کیوں کہ اس کے متن میں شذوذ و نکارت کے ساتھ ساتھ اس کی سند میں بھی مجاہیل اور غیر معروف روات ہیں۔دیکھیں : خزینۃ الأسرار (ص: ۱۰۸)