کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 113
[قیامت کے روز ہر کوئی اپنے ہاتھ میں نامۂ اعمال پکڑے گا،میں بھی حاضر ہوں گا اور میری بغل میں تفسیرِ قرآن ہوگی] اللہ تعالیٰ نے جس طرح حفاظ کرام کے سینوں کو مصحف کے لیے صندوق بنایا ہے،اسی طرح علما کے دلوں کو اسرارِ تنزیل کامخزن بنایا اور ایک کو دوسرے پر نمایاں فضیلت بخشی ہے۔فرمایا: ﴿قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ﴾ [الزمر: ۹] [کہہ دے کیا برابر ہیں وہ لوگ جو جانتے ہیں اور وہ جو نہیں جانتے؟] پھر جو حافظِ قرآن عالم بالقرآن بھی ہے اور عامل بالقرآن بھی ہے،اس کا درجہ تو بلا شک و شبہہ قابلِ رشک ہے۔إن شاء اللّٰہ تعالیٰ۔ لیکن ایسے جامع لوگ بہت تھوڑے ہوتے ہیں،سیکڑوں میں سے دو چار،بلکہ بس ایک دو۔ چہ مے پرسی زحال نسخۂ دل چیست تحریرش کتابے در بغل دارم کہ قرآن است تفسیرش [تو کتابِ دل کا کیا حال پوچھتا ہے کہ اس پر کیا تحریر ہے؟ یوں سمجھو کہ میں بغل میں ایک کتاب دبائے ہوئے ہوں،جس کی تفسیر خود قرآن مجید ہے] امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’الأذکار‘‘ میں کہا ہے: ’’تلاوۃ القرآن ھي أفضل الأذکار،والمطلوب القراء ۃ بالتدبر،وللقراء ۃ آداب ومقاصد،لا ینبغي لحامل القرآن أن یخفیٰ علیہ مثلھا‘‘[1] انتھیٰ۔ [تلاوتِ قرآن افضل ذکر ہے اور تلاوت کا مقصود تدبر ہے اور قراء ت کے کئی آداب اور مقاصد ہیں،حاملِ قرآن پر اس طرح کے آداب و مقاصد مخفی نہیں رہنے چاہییں ] ’’نزل الأبرار‘‘ میں ہے: ’’قراء ۃ القرآن آکد الأذکار،فینبغي المداومۃ علیھا،و یحصل أصل القراء ۃ بقراء ۃ الآیات القلیلۃ،کعشر آیات أو عشرین أو خمسین أو مائۃ أو مائتین أو خمس مائۃ،وفي ھذا کلہ أحادیث في کتاب ابن السني‘‘[2] [تلاوتِ قرآن بہت تاکیدی ذکر ہے،لہٰذا اس پر ہمیشگی کرنا چاہیے۔اصل (فائدہ مند)
[1] الأذکار للنووي (۱/۱۰۱) [2] نزل الأبرار بالعلم المأثور من الأدعیۃ والأذکار للمؤلف رحمہ اللّٰه (ص: ۱۳۷)