کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 111
بالآیات سائرھا،وحینئذ تقدر التلاوۃ في القیامۃ علیٰ قدر العمل،فلا یستطیع أحد أن یتلو آیۃ إلا وقد أقام ما یجب علیہ فیھا،واستکمال ذلک إنما یکون للنبي صلی اللّٰه علیہ وسلم،ثم للأمۃ بعدہ علیٰ مراتبھم ومنازلھم فيالدین ومعرفۃ الیقین،فکل منہم یقرأ علیٰ ملازمتہ إیاہ تدبرا و عملاً‘‘[1] انتھیٰ۔ [حدیث میں جس مقام و مرتبے کا ذکر ہوا ہے،بندہ اپنے (قرآن کے) حفظ و تلاوت کے مطابق عزت پائے گا نہ کہ کسی اور چیز سے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم اصل دین سے یہ بات جان چکے کہ کتاب پر عمل کرنے والا،اس پر تدبر کرنے والا اس کو (محض) حفظ کرنے والے اور تلاوت کرنے والے سے افضل ہے،کیوں کہ یہ عمل و تدبر میں اس مقام و مرتبے کو پانے والا نہیں ہے۔یقینا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ایسے افراد بھی تھے،جو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے زیادہ حافظ اور زیادہ تلاوت کرنے والے تھے،مگر اس کے باوجود وہ ان سب سے مطلق طور پر افضل تھے،کیوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے علم،اس پر تدبر اور اس پر عمل میں دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر فوقیت رکھتے تھے۔اگر ہم دوسری وجہ کو دیکھیں تو وہ دونوں سے زیادہ صحیح اور مکمل ہے۔پس درجاتِ جنت سے مراد وہ درجے ہیں،جن کا وہ تمام آیات کے بدلے حق دار ٹھہرے گا اور اس وقت قیامت کے دن تلاوت کا عملی بنیاد پر اندازہ لگایا جائے گا۔پس کوئی شخص یہ طاقت نہیں رکھتا کہ وہ کسی آیت کی تلاوت،اس میں جو کچھ اس پر واجب ہوتا ہے،اس کے بغیر کرے۔یہ عمل اپنی مکمل صورت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دینداری میں اپنے اپنے مراتب اور منازل اور معرفتِ یقین کے بہ قدر امت کو حاصل ہے،پس ان میں سے ہر ایک قرآن مجید پر تدبر اور عمل کے مطابق ہی اس کی تلاوت کرتا ہے] الشیخ محمد حقی النازلی رحمہ اللہ نے کہا ہے: ’’وھو في غایۃ من الحسن والبھاء و نھایۃ الظھور والجلاء،ولا عبرۃ بطعن ابن حجر فیہ،وتضعیف کلامہ،وحملہ علی التکلیف،والمنافاۃ لظاہر
[1] شرح الطیبي علی مشکاۃ المصابیح (الکاشف عن حقائق السنن: ۵/ ۱۶۵۴)