کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 110
درجہ جنت میں ہے۔قرآن مجید کی کل آیات چھے ہزار دو سو چھے (۶۲۰۶) ہیں۔(جنت کے ان) ہر دو درجوں کے درمیان اتنا ہی فاصلہ ہے،جتنا آسمان و زمین کے درمیان فاصلہ ہے] لیکن دانی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ چھے ہزار آیات پر تو اجماع ہے،اس سے زیادہ میں اختلاف ہے۔کسی نے دو سو چار اور کسی نے دو سو چودہ اور کسی نے انیس اور کسی نے پچیس اور کسی نے چھتیس کہی ہیں۔ ابن ملک رحمہ اللہ شرح مشارق میں کہتے ہیں : ’’إن تمني جمیع الجنۃ جائز،وإن کان حصولہ محالا،لأنھا غیر متناھیۃ فلا توصف بالقلۃ والکثرۃ‘‘[1] [ساری جنت کی تمنا کرنا جائز ہے،اگرچہ اس کا حصول محال ہے،کیوں کہ وہ غیر متناہی ہے،لہٰذا وہ قلت و کثرت کے ساتھ متصف نہیں ہو سکتی] میں کہتا ہوں کہ ساری جنت کا ملنا تو محال ٹھہرا،لیکن کہیں ایک کوڑے کے برابر ہی ہم نالائقوں کو مل جائے تو اسے ہم اس دنیا وما فیہا سے بہتر سمجھتے ہیں،جس طرح حدیث میں آیا ہے: ((إِنَّ مَوْضِعَ سَوْطِ أَحَدِکُمْ فِي الْجَنَّۃِ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا)) [2] أَوْ کَمَا قَالَ صلی اللّٰه علیہ وسلم۔ [یقینا تم میں سے کسی ایک کے کوڑے کے برابر جنت میں جگہ ساری دنیا اور اس کے ساز و سامان سے بہتر ہے] علامہ طیبی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’المنزلۃ التي في الحدیث ھي ما ینالہ العبد من الکرامۃ علی حسب منزلتہ في الحفظ والتلاوۃ،لا غیر،و ذلک لما عرفنا من أصل الدین أن العامل بکتاب اللّٰہ تعالیٰ المتدبر لہ أفضل من الحافظ والتالي لہ،إذ لم ینل شأنہ في العمل والتدبر،وقد کان في الصحابۃ من ھو أحفظ لکتاب اللّٰه من الصدیق،وأکثر تلاوۃ منہ،وکان ھو أفضلھم علی الإطلاق،لسبقہ علیھم فيالعلم باللّٰہ تعالیٰ بکتابہ،وتدبرہ لہ،وعملہ بہ،وإن ذھبنا إلی الثاني،وھو أحق الوجہین وأتمھما،فالمراد من الدرجات التي یستحقھا
[1] خزینۃ الأسرار (ص: ۶۳) [2] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۲۷۳۵)