کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 108
قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے اور حافظ وغیرہ کے فضائل کا بیان 1۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ کِتٰبَ اللّٰہِ ﴾ [الفاطر: ۲۹] [بے شک وہ لوگ جو اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں ] اہلِ علم نے کہا ہے کہ اس سے مراد تلاوت پر مداومت اور اس کی آیات پر عمل کرنا ہے،کیوں کہ عمل کے بغیر خالی تلاوت کا کچھ نفع نہیں ہے۔[1] 2۔سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے،جیسے اترجہ (نارنگی) ہے کہ اس کی بُو بھی اچھی اور مزہ بھی اچھا اور منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے،جیسے ریحانہ (نازبو) کہ اس کی بو تو اچھی ہے مگر مزہ تلخ ہے اور جو منافق قرآن نہیں پڑھتا،وہ حنظل (تمّے) کی طرح ہے کہ بُو بھی نہیں اور مزہ بھی کڑوا۔[2] (رواہ أحمد والشیخان وأہل السنن الأربعۃ) 3۔سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مرفوعاً مروی روایت میں کہتے ہیں : ((حَمَلَۃُ الْقُرْآنِ أَوْلِیَائُ اللّٰہِ تَعَالیٰ،فَمَنْ عَادَاھُمْ فَقَدْ عَادَی اللّٰہَ،وَمَنْ وَالَاھُمْ فَقَدْ وَالَی اللّٰہَ)) [3]
[1] تفسیر روح البیان (۷/ ۲۶۹) [2] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۷۱۲۱) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۷۹۷) مسند أحمد (۴/۳۹۷) سنن أبي داؤد،رقم الحدیث (۴۸۲۹) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۲۷۶۵) سنن النسائي،رقم الحدیث (۵۰۳۸) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (۲۱۴) [3] مسند الفردوس بمأثور الخطاب للدیلمي (۳/۱۳۵) اس کی سند میں’’داود بن المحبر‘‘ راوی وضاع ہے،لہٰذا یہ روایت موضوع ہے۔تفصیل کے لیے دیکھیں : سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ،رقم الحدیث (۲۲۴)