کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 83
جس میں سیاست کے ضوابط و قوانین پائے جاتے ہیں ۔ بخلاف عیسائی مذہب کے کہ اس میں سیاست کے قوانین کا پایا جانا تو درکنار بلکہ وہ اس سے مخالفت اور بیزاری ظاہر کرتا ہے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے، دوسرا بھی اس کی طرف پھیر [1] دے۔ (متی، باب ۵، درس ۳۹ تا ۴۰)
گویا ہرشریر آدمی، زانی، چور، بدمعاش، شرابی اور ظالم کو اجازت دے دی کہ ملک میں جس طرح چاہیں بدمعاشی کریں ۔ ان کو مقابلہ کر کے اگر بدمعاشی اور ظلم سے روکا جائے تو اس تعلیم کی مخالفت ہوتی ہے، جو ممنوع ہے۔ اس تعلیم کی بنا پر اگر کوئی شخص عیسائی سے طمانچہ مار کر حکومت بھی چھین لے تو اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ پس ایسے مذہب، جس کی تعلیم سے ملک میں بد امنی پھیلے، اس کو عالمگیر ماننا انصاف کا خون کرنا ہے۔ مختصر یہ کہ اسلام کے سوا دنیا میں کوئی عالمگیر مذہب نہیں ، اس کے عالمگیر ہونے کی تو زمانہ شہادت دیتا ہے۔ [2]
[1] جناب مسیح خود اس پر عمل نہیں کر سکے، کیونکہ کہتے ہیں : ’’مگر میرے ان دشمنوں کو جنھوں نے نہ چاہا تھا کہ میں ان پر بادشاہی کروں ، یہاں لا کر میرے سامنے قتل کرو۔‘‘ (لوقا: ۱۹: ۲۷) اسی طرح جب جناب مسیح علیہ السلام کو لوگ پکڑنے آئے تھے تو ایک شاگرد نے تلوار لے کر ایک آدمی کا کان اڑا دیا تھا۔ (متی: ۲۶: ۵۱) یہ ایک فطری عمل تھا، جب کہ زیرِ بحث قانون غیر فطری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جناب مسیح کی زندگی میں بھی اس پر عمل کرنا ناممکن تھا، اسی طرح ان کے ہاں شادی نہ کرنا افضل اور پسندیدہ ہے، لہٰذا اگر ساری دنیا فضیلت کے حصول کے لیے اس پر عمل کرے تو دنیا چند سالوں میں ختم ہو جائے گی یا پھر بدکاری اور زنا عام ہوجائے گا۔ کیا اس حکم پر بھی عمل ہو سکتا ہے: ’’جو کوئی اپنی بیوی کو چھوڑ کر دوسری سے بیاہ کرے، وہ زنا کرتا ہے اور جو شخص شوہر کی چھوڑی ہوئی عورت سے بیاہ کرے، وہ بھی زنا کرتا ہے۔‘‘ (لوقا: ۱۶: ۱۸) یعنی شادی شدہ طلاق دے سکتا ہے نہ مطلقہ عورت سے شادی ہو سکتی ہے۔ کیا ساری دنیا اس پر عمل کر سکتی ہے؟! [خاور رشید]
[2] ایک مثال یہ بھی ہو سکتی ہے: پولوس لکھتا ہے: ’’ہر شخص اعلیٰ حکومتوں کا تابعدار رہے، کیوں کہ کوئی حکومت ایسی نہیں ، جو خدا کی طرف سے نہ ہو اور جو حکومتیں موجود ہیں ، وہ خدا کی طرف سے مقرر ہیں ، پس جو کوئی حکومت کا سامنا کرتا ہے، وہ خدا کے انتظام کا مخالف ہے اور جو مخالف ہیں ، وہ سزا پائیں گے۔‘‘ (رومیوں : ۱۳: ۱۔۲) کیا عیسائی اس کے مطابق ہر ملک میں دوسروں کے تابع رہے یا کہ انھوں نے آزادی کی جدوجہد بھی کی تھی؟ نیز دوسرے مذاہب والوں کے ملکوں پر قبضہ کرنا بھی ان کے لیے حرام ٹھہرتا ہے، کیا انھوں نے ایسا نہیں کیا؟ کیا ہر عیسائی ہر وقت اور ہر ملک میں اس پر عمل پیرا رہ سکتا ہے اور کیا عملی طور پر کبھی ایسا ہوا ہے؟ یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی حکومت ان کو ختم کرنے کا قانون بنا دے تو یہ چوں چراں نہیں کر سکتے۔ کیا یہ عیسائیوں کو قبول ہے؟[خاور رشید]