کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 651
بادشاہت میں داخل ہونے کے قابل نہیں ۔ پس ایسے شخص کو کب نجات مل سکتی ہے؟ یاد رہے کہ حضرت مسیح کا یہ فرمانا کہ جو خدا سے ہو سکتا ہے، وہ انسان سے نہیں ہو سکتا، اس کا یہ مفہوم ہرگز نہیں کہ خدا مال دار کو نجات دے گا۔ اگر یہ مفہوم لیا جائے تو حضرت مسیح کے اس قول کی تکذیب لازم آتی ہے۔
کتبِ الہامیہ میں خدا نے وعدہ کیا ہے کہ نافرمانوں اور منکرین کو نجات نہیں ملے گی۔ اسی طرح خدا تعالیٰ دولت مند کو نجات دینے پر اگرچہ قادر ہے، لیکن دے گا نہیں ، کیونکہ اس نے انجیل میں وعدہ کیا ہے کہ دولت مند کا نجات پانا محال ہے، کیونکہ از روئے انجیل مال دار کو نجات کی امید رکھنی تو یقینا باطل ہے، لہٰذا ان پر لازم ہے کہ ایسے مذہب سے الگ ہو کر کسی ایسے مذہب کی تلاش کریں ، جس میں انھیں نجات حاصل ہو جائے اور وہ اسلام ہی ہے۔
تیسری قسم منافات نجات کی یہ ہے کہ انجیل کا دعویٰ ہے کہ تمام افرادِ انسان جہنم کی آگ میں جلائے جائیں گے۔ مندرجہ ذیل آیت غور سے ملاحظہ ہو:
’’ہر شخص آگ سے نمکین کیا جائے گا۔‘‘ (مرقس: باب ۹، فقرہ ۴۹)
یعنی جس طرح ہانڈی میں گوشت کے ہر ایک ٹکڑے میں نمک مخلوط ہو جاتا ہے، اسی طرح ہر انسان کے جسم میں آگ مخلوط ہو جائے گی، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کوئی ایسا شخص نہیں ، جو آگ سے نہ جلایا جائے، تمام لوگ کباب کی طرح اس میں برشتہ کیے جائیں گے۔
بعض پادری صاحبان اس کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر انسان جہنم کی آگ میں ڈالا جائے گا، بلکہ یہاں بپتسمہ کی آگ مراد ہے، لیکن یہ تاویل غلط ہے۔ فقرہ مذکورہ کے الفاظ اس تاویل کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں ۔ فقرہ مذکورہ قضیہ موجبہ کلیہ محصورہ ہونے کے موجب ہر ایک کو شامل ہے، یعنی تمام لوگ آگ سے جلیں گے اور بپتسمہ عیسائیوں کے سوا کوئی دوسرا شخص نہیں پا سکتا۔ نیز یہ آیت کے سیاق کے بھی خلاف ہے، کیونکہ اس کے ما قبل وما بعد بپتسمہ کا ذکر تک نہیں ہے، بلکہ اس سے پیشتر یہ مضمون چلا آتا ہے کہ جو انسان کے اعضا خواہ ہاتھ ہو یا پاؤں ، آنکھ ہو یا کچھ اور، اگر اُن میں سے کسی ایک سے بھی کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو انسان کو چاہیے کہ ایسے عضو کو کاٹ کر اپنے جسم سے جدا کر ڈالے، تاکہ اس کا سارا بدن جہنم میں نہ ڈالا جائے۔