کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 650
ملاحظہ ہوں ۔ حضرت مسیح کا ارشاد ہے:
’’مبارک ہیں وہ جو رحم دل ہیں ، کیونکہ ان پر رحم کیا جائے گا۔‘‘ (متیٰ: باب ۵، فقرہ ۷)
یعنی رحم کے بدلے میں رحم ہوگا، جو لوگ رحم دل نہیں ، ان پر رحم نہیں ہوگا۔ پھر فرماتے ہیں :
’’اس وقت ہر ایک کو اس کے کاموں کے موافق بدلہ ملے گا۔‘‘ (متی: باب۶، فقرہ ۲۷)
یعنی قیامت میں اگر کسی شخص کے اعمالِ صالحہ ہوں تو اسے نیک جزا، یعنی نجات ملے گی، اسی طرح اگر کسی کے اعمال بد ہوں تو اسے سزا یاب ٹھہرایا جائے گا۔ نیز حضرت مسیح علیہ السلام کا شاگرد یعقوب اپنے الہامی خط میں یہاں تک اعمال کی تاکید کرتا ہے کہ سوائے اعمال کے ایمان کا وجود ہی محال ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں :
’’اگر کوئی کہے کہ میں ایمان دار ہوں ، مگر عمل نہ کرتا ہو تو کیا فائدہ؟ کیا ایسا ایمان نجات دلا سکتا ہے؟‘‘ (یعقوب کا خط: باب ۴، فقرہ ۱۴)
چونکہ اعمال کے بغیر محض ایمان نجات دینے سے عاجز ہے، لہٰذا مدارِ نجات ایمان بالاعمال ہی ہے، کفارہ نہیں ہے۔ پھر کہتا ہے:
’’غرض جیسے بدن بغیر روح کے مردہ ہے، ویسے ہی ایمان بھی بغیر اعمال کے مردہ ہے۔‘‘
(باب مذکورہ، فقرہ ۲۶)
پس جب اعمال ایمان کا جزوِ اعظم ہے، جس کے عدم سے عدمِ ایمان لازم آتا ہے تو سوائے اس کے نجات کیسے حاصل ہوگی؟ پس نتیجہ صاف ہے کہ مدارِ نجات کفارہ ہر گز نہیں ہے، بلکہ اعمال ہیں ۔
دوسری قسم منافی نجات یہ ہے کہ عیسائی مذہب دولت مند کو مطلقاً نجات سے محروم کرتا ہے۔ چنانچہ مسیح کا ارشاد ہے:
’’دولت مندوں کا خدا کی بادشاہت میں داخل ہونا ایسا مشکل ہے کہ اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے نکل جانا اس سے آسان ہے۔ سننے والوں نے کہا: تو پھر کون نجات پا سکتا ہے؟ اس نے کہا:
’’جو انسان سے نہیں ہو سکتا، وہ خدا سے ہو سکتا ہے۔‘‘ (لوقا: باب ۱۸، فقرہ ۲۴ تا ۲۷)
حوالجات مذکورہ بالا کا مطلب یہ ہے کہ دولت مند کا نجات پانا نہایت محال ہے، یعنی وہ خدا کی