کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 630
شوکت نمایاں ہو۔
اقول: اگر بِنا علی القبور میں یہ علت تھی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی قبور پر بنا کیے جاتے۔ اس زمانے میں اسلام کی شوکت نمائی کی ضرورت نہ تھی؟ اس زمانے میں عوام مخالف بھی تھے۔ مقبور کی حرمت یہی ہے کہ ان کو روندھا نہ جائے اور ان پر بیٹھا نہ جائے اور ان کی زیارت کی جائے اور مقبورین کے لیے دعا کی جائے، جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے۔ فقط حرام اور منع کاموں سے اسلام کی شوکت نمایاں نہیں بلکہ تحقیر ہے۔ ملا جی! بتایئے کہ اگر ایک شخص آپ کی طرح یہ فتویٰ دے کہ سونے کے برتن میں کھانا پینا جائز ہے اور مرد کو ریشمی لباس پہننا جائز کر دے، اس لیے کہ اسلام کی شوکت نمائی ہو تو کیا اس صورت میں حرام چیزوں پر عمل کرنا جائز ہوگا؟ ہرگز نہیں ۔ اسلام کی شوکت نمائی اس چیز سے ہوتی ہے جس پر عمل کرنے میں اسلام کی اجازت ہو۔
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۶۹۹) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۹۰۶)
[2] یہ مرفوع حدیث نہیں ، بلکہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قو ل ہے۔ دیکھیں : المعجم الأوسط (۴/ ۵۸) مزید تفصیل کے لیے دیکھیں : التعلیق الممجد (۱/ ۳۵۵)