کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 628
قال: امام بخاری صحیح میں لکھتے ہیں کہ جب حسن بن علی رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو ان کی زوجہ فاطمہ بنت حسین رضی اللہ عنہ نے اس کی قبر پر قبہ بنایا، پھر ایک سال کے بعد اٹھا دیا۔ اس حدیث سے قبر پر قبہ لگانا جائز ثابت ہوتا ہے، اگر منع ہوتا تو امام حسین رضی اللہ عنہ کی بیٹی یہ کام نہ کرتیں ۔
اقول: اس حدیث سے قبہ کو اٹھا دینا بھی جائز ثابت ہوتا ہے، اگر قبہ اٹھانا منع ہوتا تو امام حسین رضی اللہ عنہ کی دختر ہرگز یہ کام نہ کرتیں ۔ قبر سے قبہ اٹھانے کو ترجیح ہی دی جائے گی، اس لیے کہ یہ آخری فعل ہے۔ پہلے فعل کو اس لیے ترک کیا جاتا ہے کہ جب کوئی صحیح دلیل اس کے خلاف مل جائے تو اس کے خلاف عمل کیا جاتا ہے۔ قبر سے قبہ اٹھا دینا مرفوع حدیث کے مطابق ہے، ہر صورت میں اسی کو ترجیح ہوگی۔ اسی روایت میں جو غیبی آواز ہے، اسے ملا جی نے نہیں سنا: ’’بل یئسوا فانقلبوا‘‘ باوجود اس ڈانٹ کے خلاف حدیث ایک امتی کے فعل کو سند بنانا نرا ملا پن نہیں تو اور کیا ہے؟
قال: علامہ عینی رحمہ اللہ شرح بخاری میں لکھتے ہیں کہ ’’ضربت عائشۃ علیٰ قبر أخیھا فنزعہ ابن عمر‘‘[1] یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھائی کی قبر پر خیمہ لگایا اور عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اسے اتار دیا۔
اقول: میں کہتا ہوں کہ عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کے فعل کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے فعل پر ترجیح ہو گی، کیوں کہ یہ حدیث مرفوع کے مطابق ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا سکوت بھی اس امر کی تائید کرتا ہے۔ اگر قبر پر سے خیمہ اتار دینا منع ہوتا تو حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کو اتارنے سے ضرور منع کرتیں ، حالانکہ انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ یاد رہے کہ ضرب القبتہ خیمہ لگانے کی عبارت ہے، بخلاف بنانے کے کہ وہ پتھراور اینٹ سے بنایا جاتا ہے اور آثار مذکورہ بالا میں خیمہ اتارنے کے متعلق لفظ رفع نزع کا وارد ہوا ہے، بخلاف ہدم کے کہ یہ لفظ بِنا کے گرانے کے متعلق آتا ہے۔ ایسے آثارسے بِنا علی القبور کا جواز نکالنا سراسر غلط ہے۔ ملا صاحب کے اس استدلال کو ان کا اپنا ہی قول باطل کرتا ہے۔ چنانچہ اپنے رسالے کے صفحہ (۲۷) میں لکھتے ہیں کہ وہابیوں کو لازم ہے کہ پہلے یہ ثابت کریں کہ اہلِ اسلام قبروں پر قبے بنایا کرتے تھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ ملا صاحب کے نزدیک بھی ابتدائے اسلام میں قبوں کا ثابت کرنا محال ہے، اس لیے انھوں نے سوال کیا ہے اور جس غرض سے سوال کیا، وہ آگے چل کر
[1] مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث (۶۰۰۳)