کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 627
دیتے ہیں ۔ وہ یہ ہے کہ مسلمان اللہ و رسول کے فرمانبردار ہوتے ہیں ۔ مسلمانوں کی یہ شان نہیں کہ جس چیز کو خدا اور رسول برا کہیں ، وہ اس کو اچھا سمجھیں یا برعکس اس کے، برخلاف اہلِ بدعت کے کہ نفسانی خواہش سے جس چیزکو چاہیں اچھا یا برا سمجھ لیں ۔ اگر ایک چیز کو مسلمانوں کا ایک گروہ اچھا سمجھے اور دوسرا اسے برا سمجھے تو اس صورت میں کتاب و سنت سے فیصلہ کروانا واجب ہے، جس کی قرآن و حدیث تصدیق کرے اس پرعمل کرنا لازم ہے اور دوسری کو ترک کرنا واجب ہے۔ ﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ﴾ [النسائ: ۵۹] یعنی جھگڑے کا فیصلہ قرآن و حدیث سے کرو۔ قال: صحیح بخاری میں ہے کہ خارجہ بن زید تابعی فرماتے ہیں : ’’میں نے اپنے آپ کو دیکھا اور ہم جوان تھے زمانہ عثمان میں اور ہم سے بڑا چھلانگ مارنے والا وہ شخص ہوتا جو عثمان بن مظعون کی قبر کو چھلانگ مار کر تجاوز کر جائے۔ معلوم ہوا کہ عثمان بن مظعون کی قبر بہت اونچی تھی۔‘‘ [1] اقول: احتمال ہے کہ سر کی طرف سے پائینتی کی طرف چھلانگ لگا کر گزر جاتے ہوں گے، اس لیے کہ ایک پتھر اس قبر کے سرہانے کی طرف رکھا گیا تھا، جیسا کہ حدیث میں گزرا اور ایک پتھر اس کی پائینتی کی طرف تھا، جیسا کہ ملا جی نے خود اپنے رسالے میں لکھا ہے۔ پس بہ سبب دو پتھروں کے وہ قبر مبارک اور قبروں سے بہت زیادہ لمبی ہو گئی تھی، جس کو چھلانگ مار کر گزرنا بڑے جوان کا کام تھا۔ اگر وہ قبر بہت اونچی تھی، جیسا کہ ملا صاحب کا خیال ہے تو حضور علیہ السلام نے اس کے سرہانے نشان کے لیے پتھروں کو کیوں رکھا؟ کیوں کہ وہ بلند ہونے کے باعث خود ہی تمیز کی جا سکتی تھی، بخلاف اور قبروں کے۔ یہ اکثر احادیث و آثار میں وارد ہوا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبر کو زمین سے بہت بلند نہ کرتے تھے، کوہانِ شتر کی طرح یا بالشت کے قدر اونچی کرتے تھے ۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ قبر پر اصلی مٹی سے زیادہ مٹی نہ ڈالی جائے، جیسا کہ جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں پہلے گزر چکا ہے اور عثمان بن مظعون کو تو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دفن کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ارشاد کی کس طرح مخالفت کر سکتے تھے؟
[1] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۳۲۲۰)