کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 626
چنانچہ اس کی نظیر قرآن شریف سے ملتی ہے۔ سورئہ ہود میں خدا تعالیٰ نے فرمایا: ’’جب ہم انسان سے رحمت، یعنی ہرقسم کی آسانی چھین لیتے ہیں پس تحقیق وہ ناامید اور ناشکرا ہو جاتا ہے اور جب تکلیف کا زمانہ گزر جائے تو کہتا ہے مجھ سے تکلیف دور ہو گئی۔‘‘ انسان کا تکلیف کے وقت آسانی سے ناامید ہونا غلطی اور وہم تھا، جس میں وہ سچا نہیں نکلا، پس اسی طرح سے شیطان کا بھی وہم سمجھنا چاہیے۔ اس حدیث سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عرب میں قبر پرستی نہ ہوگی، جیسا کہ ملا صاحب کا خیال ہے۔ بہت سے ایماندار لوگوں نے خبر دی ہے کہ ہم نے لوگوں کو قبروں پر سجدہ کرتے اور بوسہ لیتے ہوئے اور ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے اور ان کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ ملا صاحب! بتایئے کہ کیا یہ صریح کفر و شرک نہیں ؟ دوسری حدیث میں ہے کہ قیامت نہ آئے گی جب تک عرب عورتیں دوبارہ شرک و بت پرستی نہ کرنے لگیں گی۔[1] ملا جی! کہو اب آنکھیں کھلیں ؟ قال: لوگوں نے قبروں کو اکھیڑے جانے سے محفوظ رکھنے کے لیے کچی اینٹ سے کوہانِ شتر کی طرح بنانے کی عادت کر لی ہے اور اس کو اچھا سمجھا۔ اگر کوہان کی طرح بنانے اور اس پر پانی چھڑکنے کے باوجود بھی خوف اکھڑ جانے کا ہو تو کوئی حرج نہیں کہ پتھر یا پختہ اینٹ رکھی جائے۔ اقول: امام محمد رحمہ اللہ نے، جو امام اعظم رحمہ اللہ کے نامور شاگرد ہیں ، کتاب الآثار میں لکھا ہے کہ قبر کو کوہانِ شتر کی طرح بنانا اور اس پر پانی چھڑکنا چاہیے اور امام اعظم کا بھی یہی مذہب ہے۔ ان کو خیال چاہیے تھا کہ کیاان کو قبر کے اکھڑ جانے کا علم نہ تھا؟ کیا وہ اور لوگوں سے بھی اجتہاد کے علم میں کمتر تھے؟ یہ بمقابلہ امام محمد رحمہ اللہ و امام اعظم رحمہ اللہ کے اور کتبِ حنفیہ کے اول درجہ کی گستاخی ہے۔ جب اماموں کی تقلید کرنے والے لوگ ان کے مقابلے پر ایسی شوخ چشمی کریں تو اور لوگوں پر کیا افسوس ہو سکتا ہے؟ قال: حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ مسلمان جس چیز کو اچھا سمجھیں ، وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہوتی ہے۔[2] اقول: قطع نظر اس کے کہ ہم اس کی اسناد پر غور کریں ،تاہم اس کا اصلی مطلب بیان کر
[1] شرح الفقہ الأکبر (ص: ۳۷۵۔ ۳۷۶)