کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 625
شعائر اللہ کی تعظیم مطلوب ہے۔
اقول: بالکل لغو اور بکواس ہے۔ کتاب و سنت، بلکہ ائمہ اربعہ سے بھی یہ مسئلہ ہرگز ثابت نہیں ہوا کہ بزرگوں کی قبروں پر برج یا گنبد کو کسی نے شعائراللہ سے شمار کیا ہو اور ملا صاحب نے جو شاہ ولی اللہ و غیرہ کا قول پیش کیا ہے، اس میں ہرگز نہیں آیا کہ قبہ و گنبد شعائراللہ سے ہیں ۔ یہ محض ان پر افترا ہے۔ ہاں البتہ یہ آیا ہے کہ علماء و اولیا اللہ شعائر میں سے ہیں ۔ اگر شاہ ولی اللہ صاحب قبوں کو شعائر میں شمار کرتے تو بلاغ المبین میں ان کے گرانے کو واجب نہ کہتے۔ سببِ شرک کو شعائراللہ سمجھنا انصاف کا خون کرنا نہیں تو اور کیاہے!! اگر کسی شخص کی قبر پختہ یا اوپر گنبد بنا ہوا ہو، خواہ وہ کیسا ہی بدمعاش یا فاحشہ عورت کی قبر ہو تو ناواقف شخص یا جاہل عورت راہ گزرتے ہوئے دیکھتے ہی کہیں گے کہ یہ کسی بزرگ کا روضہ ہے، چلو شاید یہاں ہماری حاجت پوری ہو، پس وہ یہ بیہودہ خیال کرتے ہوئے اس قبر پر آئیں گے اور ہر طرح کے شرک میں مبتلا ہوں گے، سجدہ کریں گے، بوسہ لیں گے، چراغ جلائیں گے، نذریں چڑھائیں گے۔ قبر پر گنبد بنانے سے بیجا مال خرچ ہو جاتا ہے اور بے فائدہ خرچ کرنے والوں کو قرآن نے شیطان کا بھائی کہا ہے۔
قال: یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشین گوئی کے خلاف کہتے ہیں کہ ان مقامات، یعنی عرب میں شرک ہوتا ہے۔ پھر آپ نے صحیح مسلم کی ایک حدیث (۵۰۳۰) لکھ دی، جو یہ ہے:
(( إن الشّیطان قد یئس أن یعبدہ المصلون في جزیرۃ العرب))
’’یعنی شیطان ناامید ہوگیا کہ نمازی لوگ عرب کے جزیرہ میں اس کی پرستش کریں ۔‘‘
اقول: اس سے ثابت ہوا کہ بے نماز عرب میں شرک کریں گے، کیونکہ حدیث میں نمازیوں کی شرط ہے اور نمازی بھی بہت قسم کے ہوتے ہیں ۔ جو نمازی توحید و سنت کے معتقد ہیں وہ تو خدا کے فضل سے دور رہتے ہیں ۔ زمانہ نبوی میں منافق بھی نماز پڑھتے تھے، تاہم خدا نے ان کو کافر کہا، جیسا کہ قرآن سے ثابت ہے اور جب اسلام کی عظمت و شان و شوکت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ظاہر ہوئی تو واقعی شیطان ناامید ہوا کہ نمازی لوگ عرب میں شرک نہ کریں گے۔ اس بے ایمان کو بوقت ناامیدی اتنی خبر نہ ہوئی کہ ملا صاحب جیسے نمازی کسی زمانے میں عرب میں داخل ہوں گے جو قبر پرستی کو شرک ہی نہ سمجھیں گے اور طرح طرح کے حیلے نکال کر اس بدعت و شرک کو جائز کر دیں گے۔
شیطان کا یہ وہم تھا کہ ملک عرب میں مطلق شرک نہ ہوگا، جس میں وہ ہرگز سچا نہیں نکل سکتا۔
[1] الدر الختار (۲/ ۲۳۶)
[2] مشکاۃ المصابیح (۱/ ۳۸۵) نیز دیکھیں : سنن أبي داود، رقم الحدیث (۳۲۰۶)