کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 624
عیسیٰ بن مریم علیہ السلام بیچ ایک قبر کے درمیان ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے۔‘‘
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیش گوئی کی کہ میں اور عیسیٰ علیہ السلام اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما چاروں ایک قبر سے اٹھیں گے، یعنی قیامت کے دن۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ شیخین کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بموجب اقتضائے پیش گوئی کے دفن ہونا ضروری تھا، اس واسطے کہ قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اٹھیں گے، جیسا کہ عیسیٰ علیہ السلام کے دفن ہونے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ علت ہے، ویسے ہی شیخین ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی خصوصیت کی دلیل ہے اور ایک قبر اس لیے فرمایا کہ ہرسہ قبورمبارکہ آپس میں ملی ہوئی ہیں ، یعنی ان میں بقدر دیوار کی موٹائی کے بھی فاصلہ نہیں ہے۔ حدیث مذکورہ بالا سے یہ بھی ثابت ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے نازل ہونے تک روضۂ مبارک کی حفاظت کاملہ ضرور چاہیے تھی، تاکہ آپ اس میں دفن کیے جائیں ۔
اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہکے زمانے میں اس کی حفاظت ہوئی، تاکہ عرصہ دراز تک اس کا کچھ نقصان نہ ہو اور اس زمانہ کی حدیث میں فضیلت بھی موجود ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری (۲۶۵۲) میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( خیرالناس قرني ثم الذین یلونھم، ثم الذین یلونھم))
’’یعنی بہترین زمانہ میری امت کا میرا زمانہ ہے، پھر ان لوگوں کا جو ملتے ہیں ساتھ ان کے، پھر ان لوگوں کا جو ملتے ہیں ساتھ ان کے۔‘‘
یعنی جس زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے، وہ زمانہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تھا اور ان کے بعد تابعین کا زمانہ آیا اور ان کے بعد تبع تابعین کا زمانہ آیا۔ یہ تین زمانے بہتر ہیں ۔ ان میں کسی قسم کا جھوٹ اور بدعت جاری نہ ہوا تھا۔ چوتھے زمانے کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( ثم یظھر الکذب)) [1]
یعنی تین زمانوں کے بعد جھوٹ ظاہر ہوگا۔ ہم پہلے ثابت کر چکے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی قبروں کی عمارت تین زمانوں میں نہ ہوئی تھی۔ ناظرین! یہ ہیں روضہ مبارک کے دلائل ان کو غور سے سمجھیں ۔ ہے کوئی مجاورِ قبر جو یہ بتلائے کہ مقبرے کی چار دیواری کو توڑے بغیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام مدفون ہوں گے یا توڑ کر شق اول باطل اور ثانی ثابت۔ پس مقبروں کا توڑنا ثابت؟ کہو ملا جی!
قال: نیز علما و صلحا کے مزارات پرقبہ یا گنبد بنوانا عرف میں شعار، یعنی علامت ہو گیا ہے اور
[1] ما لا بد منہ (ص: ۷۸)