کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 622
نہ کی اور قبروں پر قرآن کا پڑھنا امام اعظم نے مکروہ فرمایا۔ اُن کو خیال چاہیے تھا۔ چنانچہ ملا علی قاری ’’شرح فقہ اکبر‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’اَلْقِرَائَ ۃُ عِنْدَ الْقُبُوْرِ مَکْرُوْہٌ عِنْدَ أَبِيْ حَنِیْفَۃَ وَمَالِکٍ وَأَحْمَدَ فِيْ رِوَایَۃٍ، لِأَنّہُ مُحْدَثٌ‘‘[1] یعنی قبروں کے نزدیک قرآن پڑھنا مکروہ ہے نزدیک ابو حنیفہ کے اور مالک اور احمد کے نزدیک بھی ایک روایت کے مطابق مکروہ ہے، کیونکہ یہ بدعت ہے۔ ملا صاحب! آپ کو چاہیے تھا کہ امام صاحب کے قول پر عمل کریں ، تاکہ تقلید کی رسّی ثابت رہیں ، لیکن آپ نے قبوں کے جواز کی آڑ میں تقلید کی رسی کو بھی توڑ کر نیچے پھینک دیا۔ کیا امام صاحب آپ سے بھی مرتبہ اجتہاد میں کمتر تھے؟ قال: اگر روضہ شریف کو اس حکم سے مستثنیٰ کیا جاتا ہے تو اس کی دلیل چاہیے۔ اگر اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہو تو ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی تو اسی حجرہ میں مدفون ہیں تو ان کے لیے اس بنا علی القبور کو کیوں جائز رکھا گیا؟ اقول: روضہ شریف کی خصوصیت کو تو آپ نے خود لکھ مارا ہے، پھرہم سے کیوں مطالبہ کرتے ہیں ؟ اگر آپ اس میں غور کرتے تو اچھا ہوتا۔ آپ نے لکھا ہے کہ جذب القلوب میں شیخ عبدالحق دہلوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ولید بن عبدالملک رحمہ اللہ کے حکم سے حجرہ شریف کو شہید کر کے عمدہ منقش پتھروں سے گنبد تعمیر کیا۔ یہ تو ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ شریف پر گنبد عالی بنا ہوا ہے اور یہ بھی پوشیدہ نہیں کہ حجرہ کی تعمیر صحابہ کرام کے زمانے میں ہوئی۔ اس وقت کسی صحابی یا تابعی نے نہی کی اور نہ کسی نے حدیث منع بِنا کی پیش کی ہے۔ میں کہتاہوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کا اس وقت منع نہ کرنا اور سکوت کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ روضہ کی تعمیر کو حدیث بِنا سے مخصوص جانتے تھے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو کوئی نہ کوئی صحابی یقینا منع کرتا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عادت تھی کہ جب وہ کسی بات کو خلافِ شریعت خیال کرتے تو منع کر دیتے، جیساکہ اکثر واقعاتِ صحیحہ اس کے شاہد ہیں ۔ نیز روضہ مبارک کی خصوصیت احادیث سے بھی
[1] کتاب الأم للشافعي (۱/۴۶۳) [2] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۹۷۶)