کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 621
قال: جو لوگ کہ کہتے ہیں کہ قبر سے جو مٹی نکلے اس سے زائد مٹی قبر پر ڈالنی جائز نہیں ، وہ اس حدیث میں خیال کریں کہ جب بڑا بھاری پتھر قبر کی مٹی سے یقینا زائد تھا، وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قبر پر رکھا۔ یعنی عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی، تو زائد مٹی کیوں منع ہوگئی؟
اقول: در مختار میں لکھا ہے، جو حنفیوں کی معتمد علیہ کتاب ہے، اس کتاب کے مصنف کو خیال چاہیے تھا۔ چنانچہ لکھتا ہے:
’’وَیُہَالُ عَلَیْہِ التُّرَابُ وَلَا یُزَادُ عَلٰی مَا خَرَجَ مِنْہُ، وَلِأَنَّہٗ بِمَنْزِلَۃِ الْبِنَائِ‘‘[1]
یعنی قبر پر مٹی ڈالی جائے اور نہ زیادہ کی جائے اوپر اس چیز کے جو اس سے نکلے، اس لیے کہ وہ بِنا کے قائم مقام ہے۔
فقہا نے بِنا کی ممانعت میں اتنا مبالغہ کیا کہ زائد مٹی کو بھی بمنزلۂ بِنا سمجھ کر منع کر دیا۔ اگرچہ ملاں صاحب کی مسلّمہ کتاب کا مسئلہ ہے، تاہم اس کی حمایت کرنی ہمیں لازم ہے، کیونکہ یہ حدیث کے مطابق ہے اور یہ کہنا کہ زائد مٹی کے علاوہ قبر پر ڈالنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے، غلط ہے، کیونکہ ہرگز کسی حدیث میں نہیں آیا کہ نبی علیہ السلام نے ان کی قبر کے اوپر پتھر رکھا، بلکہ اس کے الفاظ یہ ہیں : ’’فَوَضَعَھَا عِنْدَ رَأْسِہٖ‘‘[2] (مشکوٰۃ) یعنی آپ نے پتھر کو ان کے سر کے نزدیک رکھا، یعنی سرہانے کی طرف۔
ملاں جی نے یہاں خیانت سے کام لیا ہے۔ ناظرین یہی ہے ملا جی کی ایمان داری کا ثبوت! قبروں کی عمارت کے جائز کرنے میں اتنا غلو کیا کہ ایمان کو بھی دیس نکالا دے دیا۔ یہود و نصاریٰ کی طرح تحریف سے غرض کو پورا کرنا چاہا، حالاں کہ اپنے رسالے میں ایک جگہ خود بھی لکھتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے عثمان بن مظعون کی قبر کے سر کی طرف پتھر کو رکھا۔ یہاں آکر عمداً خیانت کی!
قال: قبر پر خیمہ یا قبہ بنایا جائے تو بہتر ہے، تاکہ زائرین آرام سے درود شریف یا قرآن شریف پڑھنے کے لیے بیٹھ سکیں ۔
اقول: قبروں پر بیٹھ کر درود شریف کا وظیفہ کرنے کی دلیل چاہیے تھے اور آپ نے کوئی پیش