کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 619
اقول: قبر کو پختہ، یعنی گچ کرنے اور قبہ بنانے سے زینت تو خوامخواہ ہو جاتی ہے، اکثر فقہا نے اس سے مطلقاً منع کیا ہے۔ چنانچہ کتاب غایت الاوطار شرح در مختار بحوالہ طحطاوی منقول ہے کہ زینت کے لیے قبر پر عمارت بنانی حرام ہے اور میت کو دفن کرنے کے لیے مکروہ ہے۔[1] ملا جی! دیکھا آپ نے فقہاے حنفیہ تو عمارت کو قبر پر بلا زینت بھی مکروہ جانتے ہیں ۔ اگر کسی قبر پر تیار کرنے میں فخر و تکبر کی نیت نہ بھی ہو تو بھی حرام ہی ہے، کیوں کہ اکثر لوگ پختہ قبر سے طرح طرح کے شرک میں مبتلاہوتے ہیں اور علما نے اس کی ممانعت کی یہی وجہ بیان کی ہے، جیسا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی کتاب بلاغ المبین کو غور سے دیکھنے سے ثابت ہوتا ہے اور عون المعبود شرح ابو داود میں بھی و جہ مذکور ہے۔[2] جس کام میں بدعت و شرک شروع ہو جائے، وہ بہر صورت حرام ہے اگرچہ نیت کیسی ہو۔ ملاں جی! میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص قبر پر سجدہ یا رکوع کرے یا کعبہ کی طرح طواف کرے اور کہے کہ میری نیت بزرگ کی قبر کی تعظیم ہے، شرک کی نیت نہیں تو کیا آپ اس وقت اس کام کو جائز کہہ دیں گے؟ اگر آپ کہیں کہ منع ہے تو وہ بھی کہہ سکتا ہے: میری نیت شرک کی نہیں ہے۔ اگر آپ یہ کہیں کہ یہ تعظیم شرعاً حرام ہے اور ناجائز ہے تو وہ بھی کہہ دے گا کہ بزرگوں کی قبروں پر ہنود کی طرح بُرج بنانے شرعاً حرام اور ناجائز ہیں ؟ بلکہ اس مبداے شرک کو تعظیم سمجھنا ہی حرام ہے۔ اگر کوئی شخص ملاں صاحب کے مقابلے میں یہ دعویٰ کر دے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث قبورِ مشائخ و اولیا کے حق میں وارد ہے اور عوام کی قبور کو بلحاظِ عمومیت کے خود بخود شامل ہوگئی اور عوام کی قبور کو تو منع کرنے کی چنداں حاجت نہ تھی، کیونکہ کون اتنا مال خرچ کر سکتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں عوام کی تعظیم ہی کیا ہے بخلاف بزرگوں کے کہ ان کی قبروں پر طرح طرح کے شرک ہوتے ہیں تو کیا بے جا ہے؟ بہ نسبت ملا صاحب کے یہ دعویٰ بہت صحیح ہے اور فقہا کے اقوال میں اس کلیہ کی تصریح بھی موجود ہے۔ چنانچہ قاضی ثناء اﷲ حنفی نقشبندی کتاب ’’ما لا بد منہ‘‘ و ’’إرشاد الطالبین‘‘ میں فرماتے ہیں :
[1] ’’عن أبي حنیفۃ أنہ یکرہ أن یبنی علیہ بناء من بیت أو قبۃ أو نحوہ‘‘ یعنی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک قبہ وغیرہ قبر پر بنانا مکروہ ہے۔ (کبیری شرح منیہ، ص ۵۵۵) فتاویٰ قاضی خاں (۱/۱۹۳) میں ہے: ’’عن أبي حنیفۃ أنہ قال لا یجصص القبر ولا یطین ولا یرفع علیہ بنائ‘‘ انتھٰی۔ یعنی امام صاحب نے فرمایا ہے کہ قبر کو نہ چونا گچ کیا جائے اور نہ ہی کوئی عمارت بنائی جائے۔ ’’مفید المستفید‘‘ میں ہے: ’’کرہ أبو حنیفۃ البناء علی القبر‘‘ امام صاحب نے قبر پر عمارت کو مکروہ جانا ہے اور اسی طرح محیط میں بھی ہے۔ اب فقہاے کرام کی تصریحات سنیے! مفید المومنین میں ہے: ’’البناء علی القبر حرام ومن قال بإباحتہ فأباح منھیا السنۃ‘‘ یعنی قبر کو اونچا بنانا حرام ہے اور جس نے اس کو جائز کیا تو اس نے اس چیز کو جائز کہا کہ جس کو سنت نبوی نے منع کر دیا۔ یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانِ واجب الاذعان کے ہوتے ہوئے کسی کے قول کی ضرورت نہیں ۔ امداد الفتاح شرح نورالایضاح میں ہے: ’’یحرم البناء علیھا‘‘ قبر پر بنا کرنا حرام ہے۔ طوالع الانوار حاشیہ در مختار میں ہے ’’یحرم البناء علیہ‘‘ قبر پر عمارت حرام ہے۔ برہان میں ہے: ’’یحرم البناء علیہ‘‘ ’’حجۃ العلمائ‘‘ میں ہے: ’’لا یجوز البناء مثل القبۃ و غیرہا علی القبور سواء کانت للأولیاء والصّلحاء أم لغیرہم‘‘ انتھٰی۔ یعنی قبروں پر قبہ بنانا جائز نہیں ہے، اگرچہ وہ قبر کسی ولی، صالح اور عالم کی ہی کیوں نہ ہو۔ بحرالرقائق (۲/۲۰۹) میں ہے: ’’و لا یرفع علیہ البنائ‘‘ ’’ضح الغفار‘‘ میں ہے: ’’و لا یجصص القبر و لا یرفع علیہ بناء لحدیث جابر الخ‘‘ نہ تو قبر کو چونا گچ کیا جائے اور نہ ہی اس پر عمارت وغیرہ بنائی جائے۔ اور یہاں یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ ابن نجیم شرح کنز میں فرماتے ہیں کہ جہاں مطلق کراہت ہو وہاں عندالحنفیہ مکروہ تحریمی مراد ہے، جو حرام کے حکم میں ہوتی ہے، غرض اسی طرح جملہ کتبِ حنفیہ، مثلاً: جامع الرموزص (۱۶۲) شرح مختصر وقایہ جوہریرہ (۱/۱۱۱) جوہریرہ شرح ۲، زیلعی شرح ۳، کنز شرح مجمع البحرین ۴، فتاویٰ سراجیہ۵، فتاویٰ عالمگیری ۲، فتاویٰ رحمانیہ، فتاویٰ برہنہ الاسلام ۷، شرعۃ الاسلام ۹، خلاصۃ الفقہ۱۰، مستملی شرح منیۃ المصلی زمنی ۱۲، درہم الکیس ۱۱۳۔ ان تمام کتابوں میں بھی موجود ہے کہ قبے بنانے جائز نہیں ۔ اب ہم حسب وعدہ ہدمِ قباب کا ثبوت نصوص حدیثیہ، اقوالِ اہلِ فقہ، کلام شراح حدیث، تعاملِ صحابہ و سلف صالحین (