کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 618
حالانکہ ان کی قبور اس امرسے مبرا ہیں اور اس کلیہ کی تصریح امام شافعی رحمہ اللہ کامشاہدہ ہے، جیساکہ آپ اپنی کتاب الام کی جلد اول میں فرماتے ہیں : ’’لم أر قبور المہاجرین والأنصار مجصصۃ‘‘[1] ’’یعنی نہیں دیکھا میں نے قبورِ مہاجرین و انصار کو چونا گچ۔‘‘ ملا جی! میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو لوگ حقیر جانتے تھے اور ان سے یہ لوگ افضل ہیں کہ ان کی وہ تعظیم کی جائے، جو ان کی نہ کی گئی، نیز اس سے یہ ثابت ہوا کہ ائمہ اربعہ کے وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی قبریں پختہ نہ تھیں ، کیوں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ امام شافعی رحمہ اللہ سے پہلے گزر چکے تھے اور امام مالک رحمہ اللہ آپ کے استاد ہیں اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ آپ کے شاگرد ہیں ، جیساکہ کتبِ تاریخ اس پر شاہد ہیں ۔ اس زمانے میں اور بھی بڑے بڑے مجتہدین و محدثین گزرے ہیں ۔ اگر کسی نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی قبور کو پختہ بنایا تو قرونِ ثلاثہ، بلکہ مجتہدین و محدثین کے زمانے کے بعد بنایا اور ملا صاحب کے پیش کردہ اقوال میں جو سلف کا لفظ وارد ہوا ہے، اس سے صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ و تبع تابعین رحمہم اللہ کے چند لوگوں کو مراد نہیں لیا جا سکتا، کیوں کہ ان کے زمانے میں تو اس بدعت کا نام تک بھی نہ تھا۔ قال: اس واسطے کہ لوگ ان کی زیارت اور خوشی حاصل کریں ۔ اقول: زیارت کرنے والوں کو خوشی حاصل کرنی شرعاً حرام ہے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( زوروا القبور فإنھا تذکر الموت)) [2] یعنی قبروں کی زیارت کرو، کیونکہ وہ موت کو یاد کراتی ہیں ۔ پختہ قبر اور بنا کرنے سے زیارت کی علت، یعنی موت کا یاد کرنا زائل ہو جاتا ہے، کیوں کہ زائر کا دل زینت اور صنعت کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور قبہ جات میں بے شمار زینت اور صنعت ہوتی ہے، جیسا کہ مشاہدے سے ثابت ہوا ہے۔ قال: اگر یہ زینت فخر اور تکبر ہو تو منع ہے۔
[1] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۳۲۰۶)