کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 617
بلکہ صحیح حدیث میں اس امر کی تصریح ہے، چنانچہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اَلمجتھد قد یصیب وقد یخطیٔ)) (مشکاۃ) یعنی مجتہد کبھی صواب اور کبھی خطا بھی کرتا ہے، لہٰذا کسی کا قول قابلِ حجت نہیں ، کیوں کہ اس میں خطا کا احتمال ہے، خواہ وہ کوئی مجتہد ہی کیوں نہ ہو۔ ہاں اگر کتاب و سنت کے مطابق ہو تو بسر و چشم تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ جس شخص نے عمومِ حدیث کو رجال کے اقوال سے مخصوص یا مستثنیٰ سمجھا تو لازم آتا ہے کہ اس کے نزدیک احادیثِ نبویہ اور اقوالِ رجال میں مساوات ہو اور اس طرح پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت اور شان کی تحقیر لازم آتی ہے اور ان کی تحقیر شان کرنی کفر ہے اور کرنے والا کافر۔ أعاذنا اللّٰه من ذلک۔ ملا جی نے جو اقوال مستثنیٰ کے بارے میں پیش کیے ہیں وہ نہ صرف حدیثِ نبوی، بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و ائمہ اربعہ رحمہم اللہ اور دیگر مجتہدین کے بھی ظاہر متناقص ہیں اور دیگر فقہا کے اقوال ان کے خلاف بھی اکثر ملتے ہیں ، جیسا کہ آیندہ لکھا جائے گا، إن شاء اﷲ، پس دریں صورت ہم اہلِ سنت پر لازم ہے کہ ان اقوال پر عمل کریں جو کہ سنت کے مطابق ہوں اور مخالف سے پرہیز کریں ۔ ملا صاحب کوٹلی نے غازی ابن سعود کے ساتھ اتنی ضد کی اور حسد و تعصب کو اس حد تک پہنچایا کہ کتاب و سنت و آثارِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ دین و اکثر فقہا و محدثین کی مخالفت کو منظور کیا۔ ایمان اگر نہ رہے تو کوئی مضائقہ نہیں ، مگر پختہ قبریں اور ان پرہندوؤں کے مندروں کی طرح منارے اور قبے ضرور بن جائیں ۔ مرزائیوں کی طرح اگر قرآن و حدیث کی مخالفت ہو تو ہو، اسلام سے خارج ہو جائیں تو خیر مگر حیاتِ مسیح علیہ السلام و ختم نبوت کے تسلیم کرنے سے جان جسم سے جدا ہو جاتی ہے۔ وہ بھی ملا صاحب ہی کی چال چلتے ہیں ۔ قرآن و حدیث کے مقابلے میں چند اقوالِ رجال کو سند بنا کر پیش کرتے ہیں ۔ مشائخ و علما کے مزارات پر قبے بنانے کے جواز کے بارے میں ملا صاحب نے جتنے اقوال پیش کیے ہیں ، ان کا مطلب ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ مشائخ و علما کی قبروں پر بنا کرنا سلف نے مباح جانا، اس واسطے کہ لوگ ان کی زیارت کریں ، خوشی حاصل کریں اور اس میں عوام کی نظروں میں تعظیم کا قصدہو اور لوگ اس قبر والے کو حقیر نہ سمجھیں اور یہ بھی لکھ دیا کہ اگر بہ نیت فخر و تکبر اور زیب و زینت ہو تو منع ہے۔ اقول: یہ تعظیم جو بدعت و شرک کی دعوت دیتی ہے، شریعت میں اس کا نام و نشان ہی نہیں ملتا۔ اگر یہ تعظیم ہوتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی قبروں پر ضرور عمارت کی جاتی اور چونا گچ بنائی جاتیں ،
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۹۷۲) ’’عن جابر رضی اللّٰه عنہ قال: نھٰی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم أن یجصص القبر و أن یقعد علیہ، وأن یبنی علیہ )) (رواہ مسلم، ۱/۳۱۲) کذا فيالمشکاۃ، ص: ۱۴۷) یعنی حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو پختہ بنانے، اس پر بیٹھنے اور اس پرعمارت بنانے سے منع فرمایا۔ ’’قال العلامۃ النووي (۱/۲۱۳) في شرحہ: قال أصحابنا: تجصیص القبر مکروہ والقعود علیہ حرام (إلی قولہ) والبناء علیہ (إلیٰ قولہ) نص علیہ الشافعي والأصحاب‘‘ انتھی یعنی ہمارے اصحاب فرماتے ہیں کہ قبر کا چونا گچ کرنا مکروہ ہے اور اس پر عمارت بنانا حرام ہے، اسی طرح امام شافعی رحمہ اللہ اور آپ کے اصحاب نے تصریح کی ہے۔ ’’قال العلامۃ القاري الحنفي (۲/۳۷۲) فيالمرقاۃ: قال في الأزھار: النھي عن تجصیص القبور للکراھیۃ و یتناول البناء بذلک انتھیٰ مختصراً‘‘ یعنی قاری حنفی مرقاۃ شرح مشکات میں ازہار سے نقل فرماتے ہیں کہ چونا گچ کرنا قبر کامکروہ ہے اور یہ نہی عمارت بنانے کو بھی شامل ہے۔ ’’و قال التوربشتي: یحتمل الوجھین، أحدھما البناء علی القبر بالحجارۃ، ما یجري مجراھا و الآخر أن یضرب علیھا خباء و نحوہ، و کلاھما منھي لعدم الفائدۃ فیہ، انتھیٰ ما في المرقاۃ‘‘ یعنی علامہ تورپشتی فرماتے ہیں کہ حدیث کے دونوں مطلب ہو سکتے ہیں ، یعنی پتھر وغیرہ کی عمارت بنانے کو بھی یہ نہی شامل ہے اور خیمہ وغیرہ کے منع پر بھی شامل ہے۔ بہرحال ہردو صورت میں منع ہے، کیوں کہ اس میں کچھ فائدہ نہیں ہے، بلکہ عبث ہے۔ طیبی فرماتے ہیں : ’’لأنہ من صنیع الجاہلیۃ‘‘ کیوں کہ قبہ وغیرہ بنانا جاہلیت والوں کی روش ہے۔