کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 616
’’قبۃ مضروبۃ علیکم‘‘ یعنی لوگو! آسمان تم پر لگائے ہوئے خیمے کی طرح ہے، حالانکہ آسمان نفسِ زمین اور لوگوں میں جتنے فاصلے پر ہے وہ ظاہر ہے، اسی طرح گنبد اگرچہ نفسِ قبر سے فاصلے پر ہوتا ہے، تاہم محاروہ عرب کے لحاظ سے قبر ہی پر سمجھا جاتا ہے۔ وأمثلتہ في العربیۃ کثیرۃ۔
قال: بعض نے اسی نہی کو قبور عوام المسلمین پر محمول کیا اور علما و مشائخ المجتہد کی قبور کو اس سے مستثنیٰ سمجھا۔
اقول: آپ کو چاہیے تھا کہ مستثنیٰ کی دلیل تو بیان کرتے، جس کا یہ مفہوم ہوتا کہ بزرگوں کے مزارات پر عمارت ہونی چاہیے، صراحتاً نہ سہی، اشارۃً ہی سہی، حالانکہ آپ نے ایک حرف بھی نہیں لکھا۔ اہلِ علم کے نزدیک یہ مسلم ہے کہ حدیث کے عموم کو حدیث ہی سے خصوصیت ہوتی ہے۔ ﴿مَا کَانَ لِمُؤمِنٍ وَ لَا مُؤ مِنَۃٍ﴾ یعنی نہیں لائق واسطے مومن مرد کے اور نہ مومن عورت کے جس وقت کہ فیصلہ کرے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کسی کام کا یہ کہ ہو واسطے ان کے اختیار اپنے کام کا۔ اس آیت نے نہایت زور سے ثابت کر دیا کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے پر کسی شخص کا قول حجت پکڑنے کے لائق نہیں ، خواہ وہ کیسا ہی بزرگ کیوں نہ ہو، کیوں کہ لفظ مومن اور مومنہ نکرہ ہے جو غیر معین ہے، یعنی عمومیت کے لحاظ سے سب کو شامل ہے، گو وہ مومن کوئی صحابی یا تابعی یا مجتہد ہو، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال خداکی وحی ہے، جو خطا اور ہر قسم کی لغزش سے معصوم ہے۔ آپ کے سوا اور لوگوں سے خطا کا وقوع ممکن ہے۔
[1]
[1] تفاسیر میں موجود ہے کہ ایک شخص جاہلیت میں حاجیوں کو ستو پلایا کرتا تھا، مرنے کے بعد لوگوں نے اس کی قبر پر قبہ بنا دیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب طائف کو فتح کرتے ہیں تو معاً اس کے گرانے کا حکم دیتے ہیں ، چنانچہ وہ قبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے گرا دیا جاتا ہے۔ (ابن جریر، اقتضاء الصراط المستقیم: ۲/۵۳۹) حضرت معاویہt فرماتے ہیں کہ قبوں کا گرا دینا سنت ہے اور ان کا بلند کرنا یہود و نصاریٰ کا فعل ہے۔ (اقتضاء الصراط المستقیم: ۱/۲۲۱) اس اثر سے ثابت ہو گیا کہ قبے بنانے والے یہود و نصاریٰ سے بہت مشابہت رکھتے ہیں اور بحکم حدیث (( من تشبہ بقوم فھو منھم )) وہ زمرہ ’’کفرہ‘‘ میں شامل ہو گئے اور قبوں کو گرانے والے مردہ سنت کو زندہ کر کے بحکم حدیث (( من تمسک بسنتي عند فساد أمتي فلہ أجر مأئۃ شہید )) مقدس جماعتِ شہدا میں داخل ہو گئے۔
ناظرین! اب چند اشتہادات علماے کرام کی بھی ملاحظہ فرما کر حق کی داد دیجیے۔ علامہ ابوالقاسم ارشد تلامذہ فقیہ ابواللیث سمر قندی اپنی قابلِ قدر کتاب ’’عقد اللآلي‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’یحرم تعلیۃ القبور والبناء علیھا‘‘ یعنی قبر کو اونچا کرنا اور اس پر عمارت بنانا حرام ہے۔ علامہ ابن حضر مکی شافعی ’’تحفۃالمحتاج‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’و قد أفتی جمع بھدم کل بقرافۃ مصر من الأبنیۃ حتیٰ إمامنا الشافعي التي بناھا بعض الملوک و ینبعي لکل أحد ھدم ذلک‘‘ (تفہیم المسائل)