کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 60
نبی صادق کا معلم وحی کے ذریعے سے خدا تعالیٰ ہی ہوتا ہے۔ تورات و انجیل کا آیت میں خصوصیت کے ساتھ اس لیے ذکر ہے کہ وہ قرآن کے ما سوا سب آسمانی کتابوں سے افضل ہیں ۔ قرآن ان دونوں کتابوں کی صفت میں ہدایت اور نور کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ (سورۃ المائدہ، پ، ۶)
یہ اس تورات و انجیل کی صفت ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اتاری گئیں ۔ نیز وہ تحریف و تبدیلی سے پاک و منزّہ تھیں ۔ افضل و اشرف نبی کا ذکر اعلیٰ مرتبے کی کتاب ہی میں ہوتا ہے۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ تورات سے بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم تورات میں لکھا ہوا پاتے ہیں :
’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ، اللہ فرماتا ہے: وہ میرے برگزیدہ بندے ہیں ، وہ بے ہودہ گو اور سخت کلام نہیں ہوں گے، وہ بازاروں میں شور نہیں کریں گے۔ اگر کوئی شخص ان سے برائی کرے گا تو وہ اس کے بدلے میں برائی سے پیش نہیں آئیں گے، بلکہ اس کو معاف کر دیں گے، ان کی پیدایش مکہ شہر میں ہو گی اور شہر طیبہ، یعنی مدینہ اس کی ہجرت گاہ ہوگی اور اس کی حکومت ملک شام میں ہو گی۔‘‘ (دارمي، مشکاۃ، باب فضائل النبي) [1]
شام کا خصوصیت سے اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ وہ انبیا علیہم السلام کا ملک ہے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے وہاں بہت کوشش سے جہاد کیے اور اس کو فتح کیا، ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت تو دور دراز تک پہنچ چکی تھی۔
جاننا چاہیے کہ موجودہ تورات و انجیل وغیرہ، حال میں بہ صورت بائبل جو یہود اور عیسائیوں کے ہاتھ میں ہیں ، اگرچہ تحریف اور تخریب کی وجہ سے ان کتابوں کی شکل مسخ ہو چکی ہے، تاہم ان میں بعض ایسی بشارتیں پائی جاتی ہیں جو سوائے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی دوسرے نبی پر صادق نہیں آ سکتیں ۔ [2] تورات کی بیان کردہ صفات جس نبی میں جمع ہوں ، وہ یقینا سب انبیائ علیہم السلام سے افضل ہوتا ہے۔ اب دوسری قسم کے فضائل کو ہدیۂ ناظرین کیا جاتا ہے۔
[1] سنن الدارمي، رقم الحدیث (۱/۴)
[2] دیکھیں : استثنا (۱۸: ۱۵۔ ۱۸، ایضاً: ۳۳: ۲ مطبوعہ ۱۹۲۷ء) اس میں فاران کی چوٹیوں سے دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آنے والے نبی کا تذکرہ ہے، لیکن بعد کی طبعات میں اسے تبدیل کر کے لاکھوں کا لفظ لکھ دیا گیا ہے۔ دس ہزار والی پیشین گوئی فتح مکہ کے حوالے سے لفظ بہ لفظ صادق آتی ہے۔ نوٹ فرما لیں کہ یہ طبع ہمارے پاس بصورت فوٹو کاپی موجود ہے۔ [خاور رشید]