کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 559
۶ مکابین کی کتاب اول ۱۶ ۸۷۴
۷ مکابین کی کتاب دوم ۱۵ ۵۵۶
ٹوٹل ۱۳۷ ۴۳۷۸
تو گویا رومن کیتھولک کی بائبل میں ۱۳۷ باب اور چار ہزار تین سو اٹھتر فقرات زائد ہیں جو پروٹسٹنٹ بائبل میں نہیں ہیں ۔
ایک دوسرے کو کافر :
رومن کیتھولک فرقہ ان کتابوں کو بالکل اسی طرح الہامی مانتا ہے جس طرح باقی کتابوں کو مانتا ہے اور ان کے نزدیک ان کتابوں کا انکار کرنے والا کافر ہے۔ پروٹسٹنٹ فرقہ ان کتابوں کو الہامی نہیں مانتا اور ان کے نزدیک یہ کتابیں زاید ہیں ۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ کتابیں الہامی نہیں ہیں ، بلکہ رومن کیتھولک کلیسا کا اضافہ ہے، چنانچہ ان کو الہامی تصور کرنا کفر ہے اور یہ کتابیں پروٹسٹنٹ فرقے نے اپنی بائبل میں شامل بھی نہیں کی ہیں ۔
اب ہم عیسائی دوستوں سے ایک سوال کریں گے کہ بے شک وہ کتاب جو الہامی نہ ہو اس کو الہامی ماننا کفر ہے اور اس کے برعکس اگر کوئی کتاب الہامی ہو تو اس کا انکار بھی کفر ہے، چونکہ آپ میں سے ایک فرقہ ان کتابوں کو الہامی اور ایک فرقہ غیر الہامی مانتا ہے، چنانچہ یہ فیصلہ آپ کے ذمے رہا کہ آپ دونوں میں سے کون کافر ہے؟ پھر عیسائیوں کے نزدیک کتاب کو الہامی اور غیر الہامی پرکھنے کا معیار سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ ان کا کلیسا متفقہ طور پر کسی کتاب کو الہامی قرار دے دے اور کسی کو غیر الہامی۔
گویا الہام کا دارو مدار چند افراد پر ہے اور وہ چاہے کیسی بھی گفتگو کیوں نہ ہو الہامی قرار دے سکتے ہیں اور چاہے اچھی بھلی بات کو غیر الہامی کہہ کر ہمیشہ کے لیے ختم کر سکتے ہیں ۔ چنانچہ اس بات کا تذکرہ کیتھولک بائبل کے دیباچے میں بھی موجود ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں : گو کئی کتابوں کی بابت کئی جگہوں میں ان کے الہامی ہونے کی بابت شک رہا، لیکن کلیسا کے فیصلے نے اس شک کا ازالہ کر دیا، لیکن دوسری طرف پروٹسٹنٹ کلیسا نے ان کتابوں کا سرے سے ہی انکار کر دیا۔ پھر اگر ان کتابوں کو مقابلے
[1] دین و ایمان میں فرق کیوں نہیں آتا، شاید پادری فنڈر صاحب کے سامنے سامری تورات نہ تھی، اس لیے یہ کہہ گئے، کیوں کہ ان کی منظورِ نظر عبرانی تورات اور سامری تورات میں عقائد ایمان و ایمانیات کا بھی فرق ہے، لہٰذا محض اختلافِ قراء ت کہہ کر پیچھا نہ چھوٹ سکتا، مثلاً پہلی کتاب پیدایش کا باب اول اور فقرہ دو کو ہی لیں ۔ عبرانی میں لکھا ہے کہ اﷲ کی روح پانی پر جنبش کر رہی تھی۔ اس سے مراد جناب مسیح علیہ السلام کو لیتے ہیں ، جبکہ سامری تورات میں لکھا ہے کہ اﷲ کی ہوائیں پانی پر چل رہی تھیں ۔ آیا اس جملے سے وہ عقیدہ کشید ہو سکتا ہے؟ اسی کتاب کے اسی باب کے فقرہ ۲۷ میں لکھا ہے اور اﷲ نے انسان کو اپنی صورت پر بنایا، جبکہ سامری تورات میں لکھا ہے: ’’فرشتوں کی صورت پر بنایا‘‘ کیا عقیدے اور ایمانیات میں فرق نہیں پڑتا؟ کئی ایسی مثالیں موجود ہیں ، دو پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔ [خاور رشید]