کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 460
کہ گناہ تو کریں مسلمان اور یہودی اور عیسائی بیچارے ان کے بدلے دوزخ میں جائیں گے؟ (شیر، ص:۴۸)
نجات :’’حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر ایک مسلمان کو ایک یہودی یا عیسائی دے کر کہے گا کہ یہ تجھ کو آگ سے رہائی دینے کا بدلہ ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، مشکاۃ باب الحساب والمیزان)[1]
بے انصافی اور فوجداری کیس تو عیسائیوں کا کفارہ ہے۔ گناہ عیسائی کریں اور مسیح بیچارے کو پھانسی پر لٹکایا جائے۔
حدیث میں ’’فکاک‘‘ کا لفظ ہے، جس کے معنی خلاصی اور رہائی کے ہیں ۔ اس حدیث کو ’’کتاب التوحید‘‘ میں امام ابن خزیمہ نے بھی روایت کیا ہے۔ اس میں ’’فکاک‘‘ کا لفظ وارد ہوا ہے۔ جس کے معنی ہیں رہائی کے مانند، یعنی یہودی یا عیسائی اپنے کفر کے سبب دوزخ میں جائے گا اور مسلمان اسلام کے بدلے جنت میں جائے گا۔ قیامت کے دن کسی کا بوجھ کسی پر نہیں ڈالا جائے گا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے لوگو! جو تم میں سے مر جائے اس کو اس کی جگہ فجر کے وقت اور پچھلے پہر دکھائی جاتی ہے۔ اگر وہ جنتی ہے تو جنت کی جگہ۔ اگر وہ ناری ہے تو آگ کی جگہ۔‘‘ (بخاري و مسلم، مشکاۃ باب إثبات عذاب القبر) [2]
اس حدیث سے یہ امر مستنبط ہوتا ہے کہ ہر انسان کے دو گھر ہیں ، ایک گھر اس کا جنت میں اور ایک دوزخ میں ۔ جب وہ جنت میں چلا جائے گا تو اس کا دوزخ کا گھر خالی رہ جائے گا اور مسلمان کے دوزخ کے گھر کی آبادی کافر اپنے کفر کے سبب کرے گا، جیسا کہ کوئی مسلمان اپنا مکان بیچ کر کسی ہندو یا عیسائی کو دے دیتا ہے اور وہ کسی دوسرے مکان میں جا داخل ہوتا ہے، اسی طرح قیامت کے دن یہودی یا عیسائی اپنے کفر کے سبب مسلمان کے اس گھر میں جو دوزخ میں تھا، داخل ہو گا۔[3] فافہم
[1] کفارے پر ایمان لانے کے باوجود اناجیل کے مطابق کوئی عیسائی نجات حاصل نہیں کر سکتا، کیوں کہ کسی میں بھی ذرہ برابر بھی ایمان نہیں پیدا ہوسکتا اور اس کے بغیر نجات کیسے؟ چنانچہ جب حواری ایک لڑکے کی بد روح نہ نکال سکے تو جناب مسیح سے اس کی وجہ دریافت کی، انھوں نے بتایا: ’’اپنے ایمان کی کمی کے سبب سے، کیوں کہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر تم میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا تو اس پہاڑ سے کہہ سکو گے کہ یہاں سے سِرک کر وہاں چلا جا اور وہ چلا جائے گا اور کوئی بات تمھارے لیے ناممکن نہ ہوگی۔‘‘ (متیٰ ۱۷: ۱۹۔ ۲۰)
دوسرے مقام پر ایمان والوں کی یہ بھی علامت لکھی ہے: ’’ہلاک کرنے والی چیز پی لیں گے تو ہلاک نہ ہوں گے، نئی نئی زبانیں بولیں گے وغیرہ۔‘‘ (مرق ۱۶: ۱۷۔ ۱۸) پوری دنیا میں کوئی ایک بھی عیسائی ایسا نہیں ، جو محض اپنے ایمان کی وجہ سے ان میں سے کوئی کام کر سکے، تو نجات کیسے؟ مزید لکھا ہے: ’’تم یہ خوب جانتے ہو کہ کسی حرام کار یا ناپاک یا لالچی کی، جو بت پرست کے برابر ہے، مسیح اور خدا کی بادشاہی میں کچھ میراث نہیں ۔‘‘ (افسیوں ۵: ۵) ایک اور جگہ لکھا ہے: ’’اور جب راست باز ہی مشکل سے نجات پائے گا تو بے دین اور گناہگار کا کیا ٹھکانا۔‘‘ (۱۔ پطرس ۴: ۱۸) اگر کوئی عیسائی اپنے مذہب کو ترک کر کے کسی دوسرے دین میں چلا جائے اور بعد میں پھر وہ عیسائی ہونا چاہے تو یہ ممکن نہیں ، لہٰذا پھر مسیحیت میں اس کے لیے نجات بھی نہ ہوئی، لکھا ہے: ’’جن لوگوں کے دل ایک بار روشن ہوگئے اور آسمانی بخشش کا مزہ چکھ چکے اور روح القدس میں شریک ہوگئے اور خدا کے عمدہ کلام اور آیندہ جہان کی قوتوں کا ذائقہ لے چکے، اگر وہ برگشتہ ہو جائیں تو انھیں توبہ کے لیے پھر نیا بنانا ناممکن ہے، اس لیے کہ وہ خدا کے بیٹے کو اپنی طرف سے دوبارہ مصلوب کر کے علانیہ ذلیل کرتے ہیں ۔‘‘ (عبرانیوں ۶: ۴۔۶) [خاور رشید]