کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 459
23۔سیئات :آپ اپنے رسالے کے فصل دہم میں ایک عنوان قائم کرتے ہیں ’’قرآن و حدیث سے کفارہ کا ثبوت‘‘ (شیرا فگن، ص: ۲۴) ’’اس آیت سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ بحالت احرام شکار کا قتل کرنا سخت گناہ ہے، جس کے مرتکب کو سیدھا جہنم میں جانا چاہیے، لیکن قرآن شریف اس کو مالی جرمانے پر چھوڑ دیتا ہے۔‘‘ (شیرا فگن، ص:۴۸) نجات :پادری صاحب کی پیش کردہ آیت مندرجہ ذیل ہے: ’’اے ایماندارو! جنگلی شکار کو قتل مت کرو، جبکہ تم حالتِ احرام میں ہو۔ جو شخص تم میں سے جان بوجھ کر قتل کرے گا تو اس پر اس کا بدلہ واجب ہو گا، جو مساوی ہو اس جانور کے جو اس نے قتل کیا ہے۔۔۔الخ‘‘ ’’خواہ وہ پیدائش خاص چار پایوں سے ہو اور وہ کفارہ مساکین کو دیا جائے اور خواہ اس کے برابر روزے رکھائے جائیں ۔۔۔الخ۔‘‘ یہ تو ہے اس آیت کا خلاصہ ترجمہ۔ اس آیت سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ بحالتِ احرام شکار کا قتل کرنا سخت گناہ ہے۔ اس کے مرتکب کو یہ گناہ معاف کرانے کے لیے کفارہ دینا پڑے گا۔ جس شخص نے گناہ کیا، اس گناہ کی معافی کے لیے سزا کا بوجھ صرف اسی پر ڈالا جائے گا نہ کہ دوسرے پر، یہ عیسائیوں کے کفارے کے خلاف ہے۔ فافہم 24۔سیئات :آیت بالا سے صاف ظاہر ہے کہ قسم کھا کر پورا نہ کرنا قابلِ مواخذہ گناہ ہے۔ ایسے شخص کو سیدھا جہنم میں جانا چاہیے، لیکن قرآن شریف اس کو مالی جرمانہ پر چھوڑ دیتا ہے۔ (شیرا فگن، ص: ۴۸) نجات: خدا تعالیٰ مواخذہ اس پر فرماتے ہیں : ’’تم قسموں کو مستحکم کرو۔ اس قسم کا کفارہ یہ ہے کہ تم دس محتاجوں کو کھانا کھلاؤ۔‘‘ (المائدۃ: ۹۷) یہ آیت بھی عیسائیوں کے کفارے کے سخت مخالف ہے۔ اس آیت میں بھی پکی قسم کھانے والوں پر ہی کفارہ پڑتا ہے نہ کہ دوسروں پر۔ 25۔سیئات :اب حدیث کی تعلیم ملاحظہ ہو۔ یہ کہاں کا انصاف[1] اور فوجداری کیس ہے