کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 450
اس آیت کے جواب میں پادری صاحب کو بہت دقت اٹھانی پڑی اور سخت مصیبت کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ اعمالِ صالحہ اور کفارہ باہم سخت متضاد اور متناقض ہیں ۔ بیچارے پادری صاحب کو یہ مشکل پیش آئی کہ اگر اعمالِ صالحہ کی تاکید کو تسلیم کر لیں تو کفارہ پر پانی پھر جاتا ہے اور اگر کفارہ کو مان لیا جائے تو اعمالِ صالحہ کا باطل ہونا لازم آتا ہے اور انجیل میں یہ دونوں موجود ہیں ، جن میں تطبیق دینا مشکل ہے۔
19۔سیئات :آپ لکھتے ہیں کہ اناجیل میں اعمالِ صالحہ پر بے حد تا کید ہے۔ یہاں تک کہ قرآن شریف کی تاکید اس کے آگے کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ (شیر ،ص: ۳۷)
اناجیل میں اعمالِ صالحہ پر اس لیے تاکید ہے کہ ایمان یعنی مسیحی ہونے کی خاص علامت اور راست بازی کا نشان ہے۔ ایماندار کامل مسیحی ہے۔ اگر اس کے اعمال میں کچھ کسر باقی ہے تو وہ شخص چھوٹا مسیح کہلائے گا۔ (شیر، ص: ۳۹)
نجات : یہ توجیہ بالکل غلط، بلکہ باطل ہے۔ اگر کفارہ سے نجات ہونے والی ہے تو اعمالِ صالحہ سے کامل اور ناقص ہونے میں کیا فرق ہے؟ نجات تو ہر دونوں کو مساوی ہو جائے گی۔ اعمالِ صالحہ کی کسر سے ناقص مسیحی کا ہونا کیا، بلکہ ایسا شخص عیسائی مذہب سے خارج اور ایمان سے بالکل خالی رہتا ہے، چنانچہ مقدس یعقوب کا ارشاد ہے، جیسا کہ عنقریب آتا ہے: ’’ایمان بغیر اعمال کے مردہ ہے۔‘‘
20۔ سیئات :اعمال سے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی نجات نہیں پا سکتے۔ حدیثِ صحیح کی رو سے اعمال کے ساتھ کوئی چیز حتی کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے اعمال سے نجات نہیں دلا سکتے۔ (شیر، ص:۴)
نجات پادری صاحب کی پیش کردہ حدیث مندرجہ ذیل ہے۔ ناظرین! بہ نظر غور اس کے معنی پربہ نظر تحقیق سوچیں :
عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰه عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( لَنْ یُنْجِيَ أحَداً مِنْکُمْ عَمَلُہُ)) قَالُوْا: وَلَا أنْتَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: (( وَلَا أنَا إِلَّا أَنْ یَتَغَمَّدَنِيَ اللّٰہُ مِنْہُ بِرَحْمَۃٍ فَسَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا واغْدُوْا وَ رَوْحُوْا بَشَیْیٍٔ مِنَ الْدُّلْجَۃِ وَالقَصْدِ تَبْلُغُوْا))[1]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ہر گز کسی کو اس کا عمل نجات نہیں دلا سکتا۔ لوگوں نے کہا کہ آپ کو بھی نہیں دلا سکتا؟ فرمایا: ہاں ، عمل مجھ کو بھی نجات نہیں دلا