کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 449
زانی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگرچہ وہ چور ہو یا زانی۔ اگرچہ یہ بات ابوذر کو ناگوار معلوم ہوتی ہے۔ (بخاری ومسلم) [1] (میں ۔۔۔ گیا، ص: ۱۷) نجات :اس حدیث سے بھی نجات بالاعمال ثابت ہوتی ہے۔ لَا إِلٰہَ کے معنی سمجھنے میں پادری صاحب نے غلطی کھائی ہے۔ معنی یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کرانے کا حق نہیں رکھتا۔ نہ حضرت مسیح اور نہ روح القدس اور عبادت اعمال سے ہوتی ہے، جیسے پانچ وقتی نماز اور زکاۃ، صدقات اور خیرات، ماہ رمضان کے روزے، حج بیت اللہ۔ یہ اسلام کے اعلی ترین ارکان ہیں ، جس شخص نے باوجود اپنی طاقت کے ادا نہیں کیے، اس نے ’’لَا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ نہیں پڑھا۔ اگر ایسا شخص، اگرچہ چور ہو یا زانی، تاہم اس کو ان گناہوں کی سزا بھگت کر انجام کار اسے نجات ہو جائے گی، اگر خدا اپنے فضل سے بخش دے۔ اگر ایک شخص پادری صاحب کی طرح عیسائی ہے یا آریہ اور وہ کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہوا تو اس کو فوراً موت آ گئی اور عمل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس کو بھی بوجہ معذور ہونے کے نجات مل جائے گی، اگرچہ وہ کفر کی حالت میں زانی ہو یا چور۔ اگر کوئی اعتراض کرے کہ اس حدیث کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں نہیں لکھا گیا تو جواب اس کا یہ ہے کہ اکثر حدیثوں میں محمد رسول اللہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ آپ کی ذات کی شہادت دینا اللہ تعالیٰ کی ذات کی شہادت کی طرح ہے۔ مذکورہ بالا حدیث میں آپ کی ذات کی شہادت ضمنی طور پر موجود ہے۔ یہ حدیث آپ کی زبان مبارک سے صادر ہوئی ہے۔ جو شخص اس حدیث پر ایمان لائے گا، پہلے وہ یقینا آپ کی رسالت کو تسلیم کرے گا۔ ہر چند کلمہ پڑھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے کو نجات مل جائے گی۔ فافہم پادری صاحب کو یاد رکھنا چاہیے کہ عیسائیت میں اعمالِ شرعیہ کے بغیر نجات نہیں مل سکتی۔ حضرت مسیح علیہ السلام تورات پر عمل کرنے پر زور دیتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’جو کوئی ان چھوٹے سے چھوٹے حکموں میں سے بھی کسی کو توڑے گا اور یہی آدمیوں کو سکھائے گا، وہ آسمان کی بادشاہت میں سب سے چھوٹا کہلائے گا۔ (متی ب ۵ درس ۱۹)
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۳۰۳۲) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۶۴۳)