کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 446
جس طرح آگ میں رہ کر کلام سناتا رہا اور جلنے سے محفوظ رہا، ٹھیک اسی طرح خدا کا قدم یا پاؤں ، جس کا حدیث میں ذکر ہے، وہ بھی جلنے سے محفوظ رہے گا۔ 16۔سیئات :پادری صاحب نے اپنے پہلے رسالے مسمی بہ ’’میں کیوں عیسائی ہو گیا؟‘‘ میں مندرجہ ذیل حدیث کو ذکر کرتے ہوئے کہ میرا گمان تھا کہ آنحضرت قیامت کے دن شفاعت کریں گے، وہ بھی اس حدیث کی بنا پر زائل ہوا۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی: ﴿ وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ﴾ [الشعرآئ: ۲۱۴] ’’اے رسول! اپنے قریبی قبائل کو اللہ کے عذاب سے ڈراؤ۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے تمام قبائل اور خاص بندوں کو بھی بلایا۔ یہاں تک کہ سب جمع ہو گئے۔ قبائل کا نام لے لے کر فرمانے لگے: ’’اپنی جانوں کو جہنم کے آگ سے بچا لو۔ بے شک میں اللہ کے عذاب سے تمھیں بچانے کا اختیار نہیں رکھتا۔‘‘ اور اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو فرمایا: ’’تم بھی اپنی جان بچانے کا انتظام کر لو۔‘‘ ’’اے لوگو! میں تمھیں اللہ کے عذاب سے بچانے کا اختیار نہیں رکھتا۔‘‘ (شیر،ص: ۵) (مشکوۃ باب الإنذار و التحذیر) [1] نجات: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس لیے مخاطب کیا کہ شاید یہ بھی حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کی طرح اسلام سے برگشتہ ہو کر جہنم میں نہ چلی جائے۔ آپ کو غیب تو نہیں تھا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جنت کی عورتوں کی سردار ہوں گی۔ اس آیت وحدیث میں قریش کے قبائل کو اسلام کی دعوت دی گئی ہے، وہ بھی پادری صاحب کی طرح اسلام کے مخالف اور کافر تھے۔ کافر کی سفارش کوئی نبی نہیں کر سکتا، البتہ قیامت کے دن خدا سے اذن حاصل کر کے گناہ گاروں کی سفارش نبی صلی اللہ علیہ وسلم کریں گے، جو بخشش کی دعا ہو گی۔ (مشکاۃ، باب الحوض والشفاعۃ) صحاح ستہ اور دیگر کتبِ احادیث کا مطالعہ کرنے سے اس کی وضاحت ہوتی ہے کہ شفاعت کی احادیث مبلغ تواتر تک پہنچ چکی ہیں ، جو قطعی اور یقینی علم کافائدہ دیتی ہیں ۔ کافر کو شفاعت سے بچانے کا
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۲۸۴) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۸۴۸) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۴۵۶۹) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۸۴۶)