کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 441
فصل سوم: لفظ ’’وارد‘‘ کا فیصلہ اور دوزخ کا بھر جانا 11۔﴿وَ لَوْ شَآئَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ * اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ وَ لِذٰلِکَ خَلَقَھُمْ وَ تَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ لَاَمْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ﴾ [ھود: ۱۱۸۔ ۱۱۹] ترجمہ: ’’اگر تیرا رب چاہتا تو سب لوگوں کو ایک امت بنا دیتا، لیکن یہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے مگر جس پر تیرے رب کا رحم ہو اور خدا نے ان کو اسی لیے پیدا کیا ہے، تا کہ تیرے رب کی یہ بات پوری ہو کہ میں جنوں اور آدمیوں سے دوزخ بھر دوں گا۔‘‘ (میں ۔۔۔ گیا، ص: ۱۰) نجات :اس آیت میں دو فرقوں کا ذکر ہے۔ ایک وہ لوگ جو ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے، اپنے کفر اور بد اعتقادی پر قائم رہیں گے، یہود ونصاری کی طرح اسلام کے مخالف ہوں گے اور دوسرے فرقے کو ان سے الگ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان پر خدا تعالیٰ کی رحمت ہو گی اور وہ رسولوں کے متبع ہوں گے۔ خصوصاً اسلام میں داخل ہوں گے اور خدا تعالیٰ نے سب خلقت کو پیدا کیا۔ ارشادِ باری ہے: ’’میں نے جنات اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔‘‘ [سورۃ الذاریات: ۵۶] اور خدا کی عبادت ہی اس کی رحمت کا سبب ہے۔ نفسِ آیت ہی میں کافر اور مومن دو فرقوں کا ذکرہے اور دوسرے مقام پر ہے: ’’ایک فرقہ ایمانداروں کا جنت میں داخل ہو گا اور کفار کا دوزخ میں ۔‘‘ [سورۃ الشوریٰ: ۷] پادری صاحب اپنی لا علمی اور جہالت کی وجہ سے آیت کا مطلب سمجھنے سے قاصر اور عاجز رہے اور علم سے تو یہ ایسے دور ہیں جیسے آریہ سماج گوشت کے مزے سے بے خبر ہیں ۔ جس طائفے پر خدا کی رحمت ہو گی، اس کا جنتی ہونا یقینی طور پر ہے اور دوزخ میں جانا محال ہے۔ اسلام کے مخالف طائفے
[1] اس حدیث کی سند میں ایک راوی ’’ابو لحمیہ‘‘ ضعیف ہے، دیکھیں : مسند أحمد (۳/۳۶۸) تفسیر ابن کثیر (۳/۱۷۸) [2] اس کو عقلی لحاظ سے ایسے سمجھ سکتے ہیں کہ ہسپتال میں مریض بھی ہوتے ہیں ، ڈاکٹر بھی اور دیگر عملہ، نیز مریض کے رشتے دار تو کیا سب کا حکم ایک ہے اور تمام ایک ہی حالت میں ہیں ، اسی طرح جیل کی مثال بھی لی جا سکتی ہے، جس میں چور و مجرم کے ساتھ پولیس والے بھی ہوتے ہیں ۔ اس کی مزید تائید اس حوالے سے بھی ہوتی ہے: ’’کیونکہ جو دن آگ کے ساتھ ظاہر ہوگا، وہ اس کام کو بتا دے گا اور وہ آگ خود ہر ایک کا کام آزما لے گی کہ کیسا ہے، جس کا کام اس پر بنا ہوا باقی رہے گا، اجر پائے گا اور جس کا کام جل جائے گا، وہ نقصان اٹھائے گا، لیکن خود بچ جائے گا، مگر جلتے جلتے۔ (۱۔ کرنتھیوں ۳: ۱۳۔ ۱۵) [خاور رشید]