کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 438
خالی نہیں رہتی، اسی طرح پادری صاحب مع دیگر عیسائیوں کے جہنم میں تلے جائیں گے اور انجیل کی کسی جگہ سے ثابت نہیں ہو سکتا کہ وہ بد قسمت کبھی جہنم سے نکل کر نجات بھی پائیں گے۔ ایسی نجات سے خدا کی پناہ اس کو سن کر تو ہمارا دل ڈرتا اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ پادری صاحب اس نجات کو لیے پھرتے ہیں ۔ خدا ان کو ایسی ہی نجات نصیب کرے !!
8۔سیئات: مرقس کی آیت ’’ما فوق‘‘ میں آگ سے مراد روح القدس ہے، جو پاکیزگی کا سرچشمہ ہے جس کی تائید لفظ ’’نمکین‘‘ کرتا ہے۔ انجیل میں روح القدس کو آگ سے تشبیہ دی گئی ہے:
’’وہ انھیں آگ کے شعلے کی سی پھٹتی ہوئی زبانیں دکھائی دیں اور وہ ان میں سے ہر ایک پر آٹھہریں اور وہ سب روح القدس سے بھر گئے۔‘‘ (اعمال باب ۲ درس ۳، ۴، شیر، ص: ۴۰)
نجات: سابقہ تجربے سے پہلے ہی معلوم تھا کہ بے تک بولیں گے۔ ہر ایک موٹی عقل کا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ روح القدس کے شعلے کو جو آگ سے تشبیہ دی گئی ہے، اس کو ہمارے مذکورہ بالا درسوں کے ساتھ دور کی نسبت بھی نہیں ہے۔ مذکورہ بالا آیات کو غور سے پڑھو تو ان کا سیاق اور مضمون کا تسلسل صاف شہادت دے رہا ہے کہ ان میں جہنم کی آگ کا ذکر ہے، جس میں ہر فرد بشر کو ڈالا جائے گا، بخلاف روح القدس کے شعلے کے کہ وہ مسیح کے گیارہ رسولوں پر ہی ظاہر ہوا اور جو زبانیں انھوں نے دیکھی تھیں ، ان میں سے آگ کی طرح روشنی ظاہر ہوئی، حالانکہ اس روشنی میں آگ کی سی گرمی بھی نہ تھی اور رسولوں کو کوئی تکلیف بھی محسوس نہ ہوئی اور پادری صاحب نے عوام کو دھوکا دیتے وقت اتنا بھی نہیں سمجھا کہ اگر یہ میری تحریر کسی عقل مند کے سامنے پیش کی گئی تو کیا میری لا علمی اور کم فہمی پر رائے قائم تو نہیں کرے گا؟ یقینا ـ۔۔۔!
9۔سیئات :پادری صاحب نے مندرجہ ذیل حدیث کو بھی نقل کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
’’کوئی نیک اور بد باقی نہ رہے گا، مگر جہنم میں داخل ہو گا۔ پس جہنم کی آگ ایمانداروں پر ٹھنڈی اور سلامت ہو جائے گی۔‘‘ (شیر ص:۱۶)
نجات :تفسیر ابن کثیر میں اس حدیث کو آیت زیرِ بحث ذکر کرتے ہوئے ’’غریب‘‘ کہہ کر اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے اور صحاح ستہ میں اس کو روایت بھی نہیں کیا گیا اور اس کا متن
[1] مشکاۃ المصابیح (۱/۳۸۹)
[2] مشکاۃ المصابیح (۳/۲۱۷)