کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 437
رہتا ہے، حالانکہ مشکاۃ کے اسی باب کے فصل اول میں حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث بحوالہ صحیحین مذکور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جہنم پر پل صراط گاڑا جائے گا اور شفاعت کا دروازہ کھل جائے گا اور مومن اس پل پر سے آنکھ کے پلکارے کی طرح بہت جلد گزر جائیں گے اور بعض بجلی کی طرح اور بعض ہوا کی طرح اور بعض تیز گھوڑے کی طرح اور بعض اونٹ کے سوار کی طرح گزر جائیں گے۔‘‘[1] (بخاری و مسلم) ناظرین! اب بھی کچھ ایمانداروں کی نجات میں شک ہے؟ یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک کا فیصلہ ہے اور حدیث بھی قطعی طور پر صحیح ہے۔ اس لو تھری مرتد نے اس حدیث کو نظر انداز کرتے ہوئے شرم وحیا کو بالائے طاق رکھ دیا۔ مخفی نہ رہے کہ اسلامی نجات کو حد اعتدال پر رکھا گیا ہے۔ جن مومنوں کے اعمال اعلی درجے کے ہوں گے، وہ پل پر سے پرواز کرتے ہوئے آنکھ کے پلکارے کی طرح گزر جائیں گے اور دوسرا طبقہ جو ان سے کم اعمال والا ہو گا، وہ بجلی کی طرح گزر جائے گا اور تیسرا طبقہ ہوا کی طرح اور چوتھا طبقہ پرندے کی طرح اور پانچواں طبقہ تیز گھوڑے کی طرح اور چھٹا طبقہ اونٹ کے سوار کی طرح، سب مومن حسبِ اعمال پل پر سے گزر جائیں گے اور یہ عین عدل اور انصاف کے مطابق ہے۔ اب انجیل کی بات سنو: ’’اور اگر تیری آنکھ ٹھوکر کھلائے تو اسے نکال ڈال، کانا ہو کر خدا کی بادشاہت میں داخل ہونا تیرے لیے بہت بہتر ہے کہ دو آنکھیں ہوتے ہوئے جہنم میں ڈالا جائے۔ جہاں ان کا کیڑا نہیں مرتا اور آگ نہیں بجھتی، کیونکہ ہر شخص آگ سے نمکین کیا جائے گا۔‘‘ (مرقس، باب ۹، درس ۴۷ تا ۴۹) ہائے افسوس صد افسوس!! پادری صاحب اور سب عیسائیوں نے ہمیشہ تک جہنم کی آگ میں رہنا ہو گا۔ جس سے جسم میں جہنم کی آگ سرایت کر جائے گی، جیسا کہ ہنڈیا میں گوشت کو پکانے کی غرض سے ڈالا جاتا ہے اور اس میں نمک اس طرح سرایت کر جاتا ہے کہ اس کی کوئی بوٹی اس سے
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۲۱۱) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۳۰۴)