کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 436
فہمی کا اقرار کرنا ہی پڑے گا۔ جو شخص اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی عبارت کو بھی نہ پڑھ سکے، وہ تحقیق خاک کرے گا۔ اگر یہ شخص علمی عبارت کو سمجھ سکتا تو شاید مرتد ہونے سے بچ جاتا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے دوزخ میں داخل ہونے کی نفی کی، جس پر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے آیت زیر بحث کو پیش کیا کہ ہر ایک کا دوزخ سے گزر تو ہو گا، اس کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پرہیز گاروں اور ایمانداروں کو نجات دی جائے گی۔ پس نجات کے یہی معنی ہیں کہ ان کو دوزخ میں داخل ہونے سے بچا لیا جائے گا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نجات کا مطلب دوزخ میں داخل ہونے کی نفی بیان کر دیا تو اب فیصلہ ہو گیا۔ہم یہاں ایک اور حدیث نقل کرتے ہیں جو پادری صاحب کے بہت ہی مفید مطلب تھی۔ مشکاۃ ’’کتاب الجنائز باب البکاء علی المیت‘‘، میں ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی ایسا مسلمان نہیں جس کے تین بچے فوت ہو جائیں اور اس کو آگ چھو جائے، مگر قسم حلال کرنے کے لیے۔‘‘[1] خدا نے زیر بحث آیت میں قسم کھائی ہے کہ ہر فرد بشر کا دوزخ کے پل صراط کے اوپر سے گزر ہو گا۔ اب ہم احادیثِ صحیحہ کی روشنی میں دوزخ کے پل صراط کی تشریح کرتے ہیں ۔ پادری صاحب نے ہر دو رسائل میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کو نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( یَرِدُ النَّاسُ نَاراً ثُمَّ یَصْدُرُوْنَ مِنْہَا بِأَعْمَالِھِمْ)) (مشکاۃ باب الحوض فصل ثانی) [2] اور لفظ ’’وارد‘‘ کے داخل ہونے کے معنی کیے، حالانکہ یہ حدیث مشکاۃ میں مختصر طور پر اور تفسیر ابن کثیر میں باسناد امام احمد رحمہ اللہ کے مفصل طور پر آئی ہے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : (( وَإِنْ مِّنْکُمْ إِلَّا وَارِدُھَا)) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سب لوگ وارد ہوں گے، پھر وہ اپنے اعمال کے سبب اس سے ہٹ جائیں گے‘‘ اور اسباط کی حدیث میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’یَرِدُ النَّاسُ جَمِیْعَانِ الصِّرَاطَ‘‘ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے صاف طور پر ’’وارد‘‘ کے معنی پل صراط سے گزر جانے کے کیے ہیں ۔ جب راوی اپنی روایت کے خود معنی کر دے تو اس میں شبہہ کیا
[1] تفسیر ابن کثیر (۴/۶۳۷)