کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 404
ایک قصہ کاذبہ کی بنا پر اعتراض اور اس کا جواب
سیرت:
سورۃ بنی اسرائیل کی ہفتاد ہشتم آیت میں ہے: وہ تو لگتے تھے بہکانے تجھ کو اس زمین سے، نکال دیں تجھ کو وہاں سے اور تب نہ ٹھیریں گے تیرے پیچھے مگر تھوڑا۔
اس کے ماتحت پادری صاحب نے تفسیر معالم سے بروایت کلبی ایک طویل قصہ نقل کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں تشریف لائے تو یہود نے حسد کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینے میں رہنے کی کراہت کی۔ انھوں نے آپ کو وہاں سے نکال دینے کا فریب بنایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملک شام میں نکال دیں ۔ بالآخر یہود نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ زمین مدینہ عرب نبیوں کی جگہ نہیں ہے اور یقینا نبیوں کی زمین شام کا ملک ہے، وہی زمین مقدس ہے، جس میں ابراہیم اور دوسرے انبیا علیہم السلام تھے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی مثل نبی ہیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم شام کو چلے جائیں اور اگر شام میں تشریف نہیں لیجائیں گے تو یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روم سے اور اس کے بادشاہ سے خوف ہے اور خلقت سے کہ وہ عیسائی ہیں اور بیت المقدس میں ان کا قبضہ ہے۔ پس یقینا عنقریب آپ کو روم کے خوف سے خدا محفوظ رکھے گا۔ پس یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مع اپنے لشکر کے شام کو جانے کا ارادہ کیا اور چلے گئے۔ پس خدا نے مذکورہ بالا آیت کو نازل کیا (ص:۴۲) پس اس خیال سے یہودِ مدینہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شام کو جائیں اور قیصرِ روم سے خوف نہ کریں ، اگر آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو آپ قیصرِ روم سے محفوظ رہیں گے اور ان کے دل میں یہ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ نبوت جھوٹا ہے تو روم میں جا کر وہیں کھپ جائیں گے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہود کا فریب معلوم ہو گیا تو تھوڑی دور سے لوٹ آئے اور یہود کو سزا دی، پس اس بیان سے ظاہر ہے کہ نبی بن جانے کے شوق کے مارے یہود کے فریب میں آ گئے۔
[1] ایک ہی وحی کو بائبل میں شیطانی بھی کہا گیا اور خدائی بھی، اسے مسیحی لوگ کس نظر سے دیکھتے ہیں : اس کے بعد خداوند کا غصہ اسرائیل پر پھر بھڑکا اور اس نے داود کے دل کو ان کے خلاف یہ کہہ کر ابھارا کہ جا کر اسرائیل اور یہوداہ کو گِن۔ (۲۔ سموئیل ۲۴: ۱) یہی بات دوسری کتاب میں یوں لکھی ہے: اور شیطان نے اسرائیل کے خلاف اٹھ کر داود کو اُبھارا کہ اسرائیل کا شکار کرے۔ (۱۔ تواریخ ۲۱: ۱) مسیحی اہلِ علم مانتے ہیں کہ اس مردم شماری کا حکم جناب داود علیہ السلام کو شیطان نے دیا تھا۔ (قاموس الکتاب، ص: ۵۸۴) یہاں تک ہی نہیں ، بلکہ خدا تعالیٰ خود جھوٹی اور شیطانی وحی کرتا ہے، تاکہ دھوکا دیا جا سکے، ملاحظہ اور وہ بھی ایک نہیں بلکہ چار سو جھوٹے نبیوں کو، ملاحظہ فرمائیں : پطرس (جسے جناب مسیح علیہ السلام نے اپنے بعد خلیفہ مقرر کیا تھا۔ [یوحنا ۲۱: ۱۶]) کے حوالے سے مسیحی محققین لکھتے ہیں : شیطان مسیح کے شاگردوں کے ذریعے بھی اپنا شر انگیز کام کرتا رہا، مثلاً جب پطرس رسول نے مسیح کو صلیبی موت کے خیال کو رد کرنے کی صلاح دی تو انھوں نے اسے سختی سے ڈانٹ پلائی اور کہا: اے شیطان! میرے سامنے سے دور ہو۔ (متیٰ ۱۶: ۲۳) شیطان پطرس کے ذریعے کچھ اور بھی منصوبے پورے کروانا چاہتا تھا، لیکن مسیح نے پطرس کے ایمان کی مضبوطی کے لیے دعا کی۔ (دیکھیں : لوقا ۲۲: ۳۱ وما بعد، قاموس الکتاب، ص: ۵۸۵)
بائبل میں یہ بھی لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ کے سامنے فرشتوں کے ساتھ ساتھ شیطان بھی حاضر ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کو مختلف کاموں پر اُبھارتا ہے، انہی میں سے ایک سیدنا ایوب علیہ السلام کی آزمایش تھی، پہلی مرتبہ تو ایوب علیہ السلام کو ناشکری پر نہ لگا سکا، لیکن جب شیطان نے بیماری لاحق کی تو نہایت بے صبرے ہوئے کہ اپنی ولادت کے دن پر لعنت کرنے لگے اور اﷲ تعالیٰ کا جو اُن پر اعتماد تھا کہ زمین پر یہ کامل اور راست باز انسان ہے جاتا رہا اور شیطان اپنے حملے میں کامیاب ٹھہرا۔ (ایوب باب: ۱۔ ۳) [خاور رشید]