کتاب: مجموعہ رسائل گکھڑوی - صفحہ 401
انبیا علیہم السلام کی وحی کا شیطانی القاسے محفوظ رہنا
سیرت:
سورت حج کے رکوع ۷ میں شیطان سے فریب کھانے کا یہ عذر منظور ہے: اور جو رسول بھیجا ہم نے تجھ سے پہلے اور نبی۔ سو جب خیال باندھتے، شیطان نے ملا دیا ان کے خیال میں ۔ پھر اللہ ہٹاتا ہے شیطان کا ملایا۔ پھر پکی کرتا ہے اپنی آیتیں ۔ آپ نے تو شیطان سے فریب کھایا اور اوروں کو بھی اپنی صفائی سے دھوکے کی باتیں کہتے ہیں کہ اگلے رسولوں اور نبیوں کے خیال ملا دیا کرتا تھا۔ لوگوں کو بہکانے کے لیے عجیب جھوٹ باندھا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم شیطان کے پھانسے میں آ جاتا تھا۔ (ص: ۴۰، ۴۱)
بصیرت:
آیتِ کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی رسول یا نبی خدا کی وحی کی تلاوت کرتا تو اس وقت شیطان بھی اپنی آواز اس کی آواز میں ملا دیتا تھا، اس لیے کہ سامعین اسے بھی خدا کی وحی سمجھیں ۔ پس خدا تعالیٰ اس شیطانی القا کو دور کرنے کے لیے آیت کے الفاظ کی صدا کو جدا کر دیتا تھا، تا کہ سامعین شیطانی فریب سے محفوظ رہیں ۔[1] پس مطلب صاف ہے کہ تمام پیغمبروں کی وحی شیطانی فریب سے محفوظ اور صاف ہے۔ یہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے پیغمبروں کا حال ہے۔ آپ کی وحی کا کل انتظام سورت جن میں مذکور ہے، چنانچہ ارشادِ باری ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ تمام انبیا کی وحی کے آگے اور پیچھے حفاظت کرنے والا فرشتہ موجود رہتا ہے، تا کہ اس میں شیطانی القا کا دخل نہ ہونے پائے۔ پادری صاحب نے لا علمی اور نادانی کے باعث شیطانی فریب سے محفوظ رہنے کو شیطان کا فریب کھانا سمجھ کر عوام کو
[1] جناب مسیح علیہ السلام نے غیر یہودیوں کو کتے کہہ کر کونسی محبت کا اظہار کیا؟ یہ فیصلہ خود کر لیں ، چناں چہ جب ایک کنعانی عورت اپنی بیٹی کی شفایابی کے لیے ان کے پاس آکر درخواست کرتی ہے تو لکھا ہے: ’’میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا، مگر اس (عورت) نے آکر اسے (مسیح علیہ السلام کو) سجدہ کیا اور کہا: اے خداوند میری مدد کر، اس (مسیح) نے جواب میں کہا: لڑکوں کی روٹی لے کر کتوں کو ڈال دینا اچھا نہیں ؟‘‘ (متیٰ ۱۵: ۲۱۔ ۲۶) اپنے ماننے والوں کو نا اہل لوگوں سے دور رہنے کے لیے اس طرح تمثیل کے ذریعے سمجھایا: ’’پاک چیز کتوں کو نہ دو اور اپنے موتی سوروں کے آگے نہ ڈالو، ایسا نہ ہو کہ وہ ان کو پاؤں تلے روندیں اور پلٹ کر تم کو پھاڑیں ۔‘‘ (متی ۷: ۶) پولوس بھی بے ایمان لوگوں سے خبردار کرنے کے لیے کہتا ہے: ’’غرض میرے بھائیو خداوند میں خوش رہو، تمھیں ایک ہی بات بار بار لکھنے میں مجھے تو کچھ دِقت نہیں اور تمھاری اس میں حفاظت ہے، کتوں سے خبردار رہو، بدکاروں سے خبردار رہو، کٹوانے والوں (ختنہ کروانے والوں ) سے خبردار رہو۔‘‘ (فلپیوں ۳: ۱۔ ۲) طرفہ یہ کہ یہاں ختنہ کروانے والوں سے بھی بچنے اور دوستی نہ لگانے کا کہا جا رہا ہے، حالاں کہ ازروئے بائبل یہی نیک عمل اور خدا تعالیٰ کے ابدی عہد کا نشان ہے۔ مسیحی لوگ اب بتائیں یہ کونسے خبثِ باطن کا اظہار ہے؟ [خاور رشید]